قومی خبریں

کیا اے ایم یو-جامعہ ملیہ میں پاکستانی مصنف کی کتاب پڑھائی جا رہی ہے؟ پارلیمنت میں اٹھا معاملہ، ماہرین تعلیم کا اظہارِ تشویش

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار ناظم حسین جعفری نے اس معاملہ میں کہا ہے کہ جامعہ نے پہلے ہی یو جی سی کو مطلع کر دیا تھا کہ اس ادارے میں ایسا کوئی کورس نہیں پڑھایا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>راجیہ سبھا / فائل تصویر</p></div>

راجیہ سبھا / فائل تصویر

 

نئی دہلی: راجیہ سبھا میں ایک سوال پوچھا گیا ہے کہ آیا حکومت نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یا کسی اور تعلیمی ادارے میں کسی پاکستانی مصنف کی کتاب پڑھائی جا رہی ہے؟ سوال میں کہا گیا ہے کہ کتاب کی زبان ہندوستانی شہریوں کے لیے توہین آمیز ہے اور دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے۔

Published: undefined

ملک کے 250 سے زیادہ ماہرین تعلیم نے راجیہ سبھا میں رکن پارلیمنٹ کے اس سوال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ یو جی سی نے اس سوال پر تمام مرکزی یونیورسٹیوں سے جواب طلب کیا ہے لیکن نہ تو مصنف اور نہ ہی کتاب کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔

Published: undefined

خیال رہے کہ راجیہ سبھا کے رکن نے یو جی سی کے ذریعہ یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے ایک مکتبوب کے حوالہ سے یہ سوال کیا ہے جس میں تعلیمی اداروں سے پوچھا گیا کہ وہاں کسی پاکستانی مصنف کی کتاب تو نہیں پڑھائی جا رہی ہے۔ یو جی سی نے اس سوال کا جواب 22 مارچ تک طلب کیا ہے۔

Published: undefined

ماہرین تعلیم کا کہنا تھا کہ یو جی سی نے جس طرح کا سوال یونیورسٹیوں سے پوچھا ہے اس سے فیکلٹی ممبران اور شعبوں کے سربراہان میں خوف کا احساس پیدا ہوگا اور وہ حکومت پر تنقید کرنے والی کسی بھی کتاب یا رجعت پسند مذہبی طریقوں کو شامل کرنے سے گریز کریں گے۔

Published: undefined

یو جی سی کے سوال پر اعتراض کرنے والوں میں ڈی یو، جے این یو، آئی آئی ٹی دہلی، آئی آئی ٹی ممبئی، بنگلور یونیورسٹی، شیو نادر یونیورسٹی، جاداو پور یونیورسٹی، اے ایم یو، حیدرآباد یونیورسٹی سمیت کئی معتبر اداروں کے اساتذہ شامل ہیں۔ ان میں جے این یو کی پروفیسر امیریتا رومیلا تھاپر، ڈی یو کی نندیتا نارائن، اپوروانند، جے این یو کی عائشہ قدوائی اور کئی دوسرے پروفیسر شامل ہیں۔

Published: undefined

راجیہ سبھا میں کیے گئے سوال میں کہا گیا ہے کہ ’’کیا حکومت نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ ایک پاکستانی مصنف کی کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یا ملک کے کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں پڑھائی جا رہی ہے؟ اس کتاب کی زبان ہندوستانی شہریوں کے لیے توہین آمیز ہے اور دہشت گردی کی حمایت بھی کرتی ہے۔ حکومت پاکستانی مصنفین کی نصابی کتب میں حوالہ جات کی جانچ پڑتال پر غور کرے اور اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرے۔‘‘

Published: undefined

دوسری جانب ماہرین تعلیم نے حیرت کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجہ میں حکومت مصنف یا کتاب کا نام لیے بغیر یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی چیزوں کو سنسر کر سکتی ہے۔ ماہرین تعلیم نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی مخصوص مصنف کی ایک مخصوص کتاب پر سوال ہے لیکن ابھی تک نہ تو مصنف کا نام سامنے آیا ہے اور نہ ہی کتاب کا۔ یقیناً ایسا کسی بھول کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے؟

Published: undefined

ماہرین تعلیم نے یونیورسٹیوں کی خود مختاری کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت اپنے آئینی مینڈیٹ کو بہترین طریقے سے پورا کر سکتی ہے اور تمام ممکنہ موضوعات پر بحث اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کر کے جمہوری فضا میں تعلیمی اداروں کی خود مختاری کو فروغ دے سکتی ہے۔ یہ طالب علموں کو ممکنہ حد تک وسیع وسائل، بشمول کتابیں، مضامین اور فلموں سے روشناس کر کے بہترین کام کرتا ہے۔‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار ناظم حسین جعفری نے اس معاملہ میں کہا ہے کہ جامعہ نے پہلے ہی یو جی سی کو مطلع کر دیا تھا کہ اس ادارے میں میں ایسا کوئی کورس نہیں پڑھایا جا رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined