قومی خبریں

آزادی کا امرت مہوتسو: کرناٹک میں کامگاروں کو بے روزگاری کا ڈر، ترنگا بنانے والوں کی روزی روٹی داؤ پر!

مودی حکومت ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ منا رہی ہے اور اس درمیان کرناٹک کھادی گرامودیوگ کی مختلف یونتس سے منسلک تقریباً 45 ہزار مزدور پر بے روزگاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مودی حکومت نے آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہونے پر اُتسو یعنی تہوار منانے کے لیے ’ہر گھر ترنگا‘ مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اسے ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کہا جا رہا ہے۔ لیکن اسی اُتسو کے درمیان کرناٹک کھادی گرامودیوگ کی مختلف یونٹس سے منسلک تقریباً 45000 کامگاروں پر بے روزگاری کا بحران بھی منڈلا رہا ہے۔ ان کامگاروں کی تنظیم کرناٹک کھادی گرامودیوگ سنیوکت سنگھ نے نیشنل فلیگ کوڈ میں تبدیلی کے خلاف تحریک کا اعلان کیا ہے۔ کامگاروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ 27 جولائی کو کرناٹک کے مختلف علاقوں میں دھرنا دیں گے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ مودی حکومت نے قومی پرچم کے کوڈ میں ترمیم کی ہے جس کے بعد اب ترنگے کو کھادی سے ہی بنانے کی لازمیت ختم کر پالسٹر سے بنانے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ اس کوڈ میں 20 جولائی کو جاری ایک پیغام جاری کر حکومت نے یہ بھی طے کر دیا ہے کہ اب ملک کے سبھی لوگ ترنگے کو دن اور رات ہر وقت لگا سکتے ہیں۔ کھادی گرامودیوگ کے کامگاروں کا کہنا ہے کہ پالسٹر سے ترنگا بنانے کی شروعات کیے جانے سے ان کے سامنے بے روزگاری کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔

Published: undefined

نیشنل ہیرالڈ سے بات چیت میں تنظیم کے جنرل سکریٹری شیوانند متھاپتی نے کہا کہ پالسٹر کے ترنگے کا پروڈکشن شروع ہونے کے بعد کامگار تیزی سے بے روزگار ہوں گے کیونکہ پالسٹر سے تیار ترنگا سستا ہوتا ہے اور مشینوں کا استعمال کر اس کا پروڈکشن بڑے پیمانے پر کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلیگ کوڈ میں ترمیم کے بعد آنے والے وقت میں بڑی کمپنیاں کھادی ہتھ کرگھوں کی جگہ لے لیں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں ہر سال جتنے آرڈر ٹرنگا بنانے کے لیے ملتے تھے، اس کے نصف آرڈر بھی اس سال نہیں ملے ہیں۔ ان کے مطابق جولائی ختم ہوتے ہوتے کھادی گرامودیوگ تقریباً 2.5 کرڑ ترنگے بھیج دیا کرتا تھا، لیکن اس سال ابھی تک صرف 1.2 کروڑ ترنگے کے ہی آرڈر ملے ہیں۔

Published: undefined

متھاپتی نے اس بات کو نشان زد کیا کہ گرامودیوگ سنگھ کے پاس تقریباً 5 کروڑ روپے کے ترنگا سپلائی کرنے کا خام مال پڑا ہے جو اب بے کار ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کامگاروں کا ماننا ہے کہ پالسٹر کا ترنگا بنائے جانے سے ترنگے کا وقار بھی کم ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کھادی کا ایک وقار ہے، اور یہ خود کفیلی کی علامت ہے۔ کہنا ضروری نہیں کہ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور دیگر مجاہدین آزادی نے کھادی اپنانے کی اپیل کی تھی۔ ہم جب بھی کارخانے میں آتے ہیں تو اپنی چپل اتار کر آتے ہیں تاکہ قومی پرچم کی بے حرمتی نہ ہو۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت کو ترنگے کے احترام اور وقار کی پروا ہے ہی نہیں۔‘‘ متھاپتی نے کہا کہ ترنگے کو پالسٹر سے بنانا صرف ایک کپڑے کی بات نہیں ہے بلکہ اس وقار کی بھی بے عزتی ہے جس کے لیے ترنگے کو شان سے لہرایا جاتا ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ کرناٹک کھادی گرامودیوگ سنگھ کے ذریعہ تیار کیے گئے ترنگے کو ہی لال قلعہ، پارلیمنٹ اور راشٹرپتی بھون کے علاوہ تمام سرکاری عمارتوں پر 15 اگست اور 26 جنوری کو لہرایا جاتا رہا ہے۔ کرناٹک کھادی گرامودیوگ سنگھ صرف 9 سائز کے ترنگے ہی بناتا ہے جو کہ نیشنل فلیگ کوڈ میں مذکور ہیں۔ کھادی سنگھ نے نیشنل فلیگ کوڈ میں ترمیم کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو خط بھی لکھا ہے، لیکن انھیں اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اس خط کی ایک کاپی مرکزی وزیر برائے پارلیمانی امور پرہلاد جوشی کو بھی بھیجی گئی ہے جو کرناٹک کی دھارواڑ لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اسی ضلع میں ترنگے کے پروڈکشن کی یونٹس موجود ہیں۔ لیکن پرہلاد جوشی نے بھی اس سلسلے میں اب تک ایک بھی لفظ نہیں بولا ہے۔ اس رویہ سے کھادی سنگھ کے کامگار بہت ناراض ہیں۔

Published: undefined

متھاپتی نے بتایا کہ 27 جولائی کو ہونے والے بھوک ہڑتال کے دوران ہبلی ضلع میں سنیوکت کامگار سنگھ سے منسلک خواتین بھی حصہ لیں گی۔ یہ پوچھنے پر کہ اگر ترمیم کو واپس نہیں لیا گیا تو کیا 15 اگست کو بھی بھوک ہڑتال کیا جائے گا، متھاپتی نے کہا کہ تحریک کو مزید تیز کیا جائے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined