قومی خبریں

’دیوبند کی خواتین بہادر ہیں، پیچھے نہیں ہٹیں گی‘ عیدگاہ میدان کی مظاہرین کا اعلان

دیوبند کے عیدگاہ میدان پر شاہین باغ کی طرز پر خواتین 17 دنوں سے سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خلاف دھرنا دے رہی ہیں۔ 

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز 

دیوبند: مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور مجوزہ این آر سی کے خلاف ملک بھر کی طرح دیوبند کی خواتین بھی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ یہاں عیدگاہ میدان پر خواتین کے اس دھرنے کا نام ’دیوبند ستیہ گرہ‘ رکھا گیا ہے۔ شاہین باغ کی طرز پر اس دھرنے کا انتظام پختہ نظر آتا ہے اور خواتین کی حفاظت کے لئے بیرکیڈنگ نصب کی گئی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم مدرسہ عیدگاہ میدان سے محض 100 میٹر کے فاصلہ پر موجود ہے۔

Published: undefined

حال ہی میں اس خبر نے کافی گردش کی تھی کہ یہاں کی خواتین مظاہرین نے انہیں سمجھانے کے لئے آئے علماء اور مقامی رہنماؤں کے وفد پر چوڑیاں پھینک کر وہاں سے چلتا کر دیا تھا۔ دراصل، دار العلوم دیوبند کی وجہ سے اس شہر کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ پولیس انتظامیہ کی طرف سے اکثر شہر کے نظم و نسق کے حوالہ سے دارالعلوم کے ذمہ داران سے مدد لی جاتی ہے۔ لہذا عیدگاہ میدان کے دھرنے کو دارالعلوم کی مدد سے ختم کرانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہوا، کیونکہ انتظامیہ کی حمایت والے وفد کو اس میں کامیابی نہیں ملی۔

Published: undefined

عیدگاہ میدان کے دھرنے کا اسٹیج سنبھالنے والی ارم عثمانی چوڑیاں پھینکنے والے واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں۔ ارم نے کہا، ’’وہ ہمارے دھرنے کا بارہواں دن تھا جب دیوبند کے چیئرمین ضیاء الدین اور سابق ایم ایل اے معاویہ علی سمیت دیگر معزز افراد کا وفد یہاں آیا تھا۔ وفد کا کہنا تھا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ نے ایوان میں تحریری طور پر یہ بیان دیا ہے کہ حکومت فی الحال این آر سی نہیں لانے جا رہی، لہذا ہم دھرنا ختم کر دیں۔‘‘

Published: undefined

ارم نے مزید کہا، ’’وفد سے ہم نے کچھ سوالات کیے جن کا جواب ہمیں نہیں ملا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ یہ وفد انتظامیہ کی ہدایت پر ہمارے پاس پہنچا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی گفتگو کے دوران اچانک خواتین میں ناراضگی پیدا ہوگئی اور انہوں نے اپنی چوڑیاں نکال کر ان پر پھینکنا شروع کر دیں۔ میں نے بھی اپنی اپنی چوڑیاں ان لوگوں پر پھینک دیں۔‘‘

Published: undefined

ارم کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے چوڑیاں اس ناراضگی میں پھینکی تھیں کہ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم ہمارے راستہ میں رخنہ اندازی تو مت کرو۔‘‘ ارم عثمانی نے یہ سب بتاتے ہوئے اپنے بغیر چوڑیوں والے ہاتھ بھی دکھائے۔

Published: undefined

ارم عثمانی ایک 38 سالہ خاتون ہیں اور دیوبند میں ہی ایک اسکول چلاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہاں کی خواتین بہت بہادر ہیں، وہ اپنے قدموں کو پیچھے نہیں ہٹائیں گی۔ یہاں دھرنے کے پہلے دن ہی بھاری بارش ہوئی اور ہمارا ٹینٹ بھی ٹپکنے لگا تھا۔ تین دن تک یہی حال رہا لیکن ہم ڈٹے رہے۔ وہ وقت ہم نے برداشت کر لیا، تب خواتین کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور اب تو یہاں پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین موجود ہیں۔‘‘

Published: undefined

عیدگاہ میدان پر 17 دنوں سے جاری دھرنے کے منتظمین میں سے ایک فوزیہ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا دھرنا تو 17 دن سے جاری ہے لیکن اس کے لئے تیاری ایک ماہ سے چل رہی تھی۔ ہم نے گھر گھر جا کر خواتین کو سمجھایا کہ یہ قانون ان کے بچوں کی زندگی کو سیاہ کر دے گا۔ یہ خواتین کی سمجھ میں آگیا اور وہ دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ یہ ہماری نجی لڑائی نہیں ہے بلکہ قوم کے مستقبل کی لڑائی ہے۔‘‘

Published: undefined

الماس فاطمہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ یہاں آنے والی خواتین کی بڑی تعداد کا انتظام سنبھالیں۔ 34 سالہ گھریلو خاتون الماس نے کہا، ’’میری 13 سالہ بیٹی نے دھرنے میں شامل ہونے کے لئے مجھے تحریک دی۔ اس نے کہا کہ امی بتاؤ اگر آپ میرے بھائی کو روٹی دیں اور مجھے نہ دیں تو کیا یہ غلط نہیں ہوگا! کوئی حکومت اپنے ہی شہریوں میں تفریق کیسے کر سکتی ہے!‘‘

Published: undefined

الماس نے مزید کہا، ’’اب آپ سوچیں کہ بچوں تک کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ سی اے اے غلط ہے اور اس سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ اب میں یہاں پر 25 رضاکار خواتین کی ٹیم کو ہدایات دیتی ہوں۔ ہمارا کام انتظامات کرنا اور کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کو روکنا ہے۔‘‘

Published: undefined

دیوبند میں اس مظاہرے کے دوران مقامی انتظامیہ نے 140 سے زائد افراد کو نوٹس بھیجے ہیں، کئی اہم شخصیات کے خلاف مقدمے بھی لکھے گئے ہیں۔ بہت سے صحافیوں کے خلاف بھی مقدمات لکھے گئے ہیں۔ اس دھرنے کی ایک سرگرم رکن فوزیہ عثمان کا کہنا ہے کہ ’’میرا بھائی مقامی رپورٹر ہے اس کے خلاف مقدمہ لکھا گیا ہے۔ پہلے اس سے پولیس نے کہا تھا کہ خواتین کو دھرنے سے اٹھائے۔ پھر دباؤ بنایا گیا کہ مظاہرین کو ہٹانے میں ان کی مدد کرے۔ میرے بھائی نے دونوں ہی باتیں نہیں مانی‘‘ ایک اور صحافی کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوا ہے کیونکہ ان کی اہلیہ روبینہ احتجاج میں شامل ہیں۔

Published: undefined

الماس فاطمہ نے کہا کہ ’’حکومت ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن خوف ہمارے دلوں سے نکل گیا ہے۔ ہمیں نہ جیل جانے کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی مرنے کا۔ حکومت کو یہ سب کرنے کی بجائے مودی جی کو چاہیے کہ ہمارا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ ہمارا بھی ملک ہے۔‘‘

Published: undefined

عیدگاہ میدان کے اس دھرنے کے دوران رات میں صرف حب الوطنی اور قومیت سے سرشار تقرریریں کی جاتی ہیں۔ اسٹیج سے علینہ نامی ایک لڑکی ’آے میری زمیں‘ گانا گا رہی تھی اور داد و تحسین بٹور رہی تھی۔

Published: undefined

روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین دھرنے میں شامل ہونے کے لئے آتی ہیں۔ دوپہر 2 بجے کے بعد اور شام 8 بجے کے بعد یہاں زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ ستیہ گرہ کے دوران مردوں کے داخلہ پر مکمل طور پر پابندی ہے اور تمام انتظامات صرف خواتین ہی سنبھالتی ہیں۔ میدان کے گرد دارالعلوم کے طلباء کا ہجوم جمع رہتا ہے لیکن کوئی میدان میں داخل نہیں ہوتا۔

Published: undefined

ارم عثمانی کا کہنا ہے کہ ’’انتظامیہ کے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے، اب ہم نے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو یہاں آنے سے منع کر دیا ہے۔ کچھ خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر آتی ہیں لیکن یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘

Published: undefined

ایک اور رضاکار سلمہ کا کہنا ہے کہ ’’مودی کہتے ہیں کہ وہ مسلم خواتین کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ بقول ان کے تین طلاق کا قانون اس لئے لایا گیا تاکہ ہم کھلی ہوا میں سانس لے سکیں، لیکن انہوں نے ہوا کو زہر آلودہ کر دی ہے۔ یہ لڑائی محض ایک قانون کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ یہ ہمارے وجود کی بقا کی جدوجہد ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined