قومی خبریں

دیش بھکتی کے نام پر دیش سے دھوکہ... سہیل انجم

آر ایس ایس ہمیشہ جنگ آزادی کے خلاف اور انگریز حکومت کا وفادار رہا۔ ایسے لوگوں سے حب الوطنی کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی توقع کرنا۔

ہندوستان - چین سرحد / Getty Images
ہندوستان - چین سرحد / Getty Images SOPA Images

جب بھی کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی چینی افواج کی جانب سے ہندوستانی علاقے میں دراندازی کے معاملے پر حکومت سے سوال کرتے ہیں تو سب سے زیادہ گودی میڈیا بوکھلا اٹھتی ہے اور راہل گاندھی کو ایسے پیش کرنے لگتی ہے جیسے کہ وہ دیش بھکت نہیں بلکہ دیش دروہی ہوں۔ یہاں تک کہ ان پر چین سے سازباز کا بھی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ گودی میڈیا وزیر اعظم مودی سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر پاتی کہ آخر چینی افواج بار بار ہندوستانی علاقے میں کیسے اور کیونکر دراندازی کرتی رہتی ہیں۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

تیس اگست کو ایک سو چینی جوان ایل اے سی عبور کرکے اتراکھنڈ میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے وہاں توڑ پھوڑ مچائی اور ایک پل کو نقصان پہنچایا۔ وہ اس علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر آگئے تھے اور وہاں وہ تین گھنٹے تک رہے۔ لیکن نہ تو سیکورٹی فورسز کو اس کا علم ہو سکا اور نہ ہی مقامی انتظامیہ کو۔ جب مقامی باشندوں نے اس کی اطلاع انتظامیہ کو دی تب کہیں جا کر انڈو تبت پولیس فورس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنے گشتی دستے وہاں بھیجے۔ اس وقت تک چینی جوان وہاں کافی کچھ نقصان پہنچا چکے تھے۔ لیکن یہ خبر ہندوستانی میڈیا میں نہیں آئی۔ اگر آئی بھی تو چند سطروں پر مشتمل۔ البتہ راہل گاندھی نے اس دراندازی پر حکومت سے سوال کیا لیکن ہمیشہ کی مانند اس بار بھی حکومت نے چپی سادھ لی۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

گودی میڈیا ایسے حساس معاملات پر بھی حکومت سے کوئی سوال پوچھنے کے بجائے کانگریس پارٹی اور اپوزیشن سے سوال پوچھتی ہے۔ شکوک و شبہات کا اظہار حکومت پر کرنے کے بجائے کانگریس پارٹی پر کرتی ہے۔ اس سے قبل جب بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ گودی میڈیا نے بھی خاموشی اختیار کی ہے۔ چینی جوانوں کی دراندازی کا معاملہ بہت ہی سنگین ہے لیکن اس معاملے پر بھی حکومت اور میڈیا کا رویہ بہت سنجیدہ نہیں ہے۔ سال 2020 میں چینی جوانوں کی جانب سے ایل اے سی پر دراندازی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں لیکن ان کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

ایل اے سی پر صورت حال کتنی سنگین ہے اس کا اندازہ آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایل اے سی پر چین کی جانب سے جوانوں اور ہتھیاروں کی مسلسل تعیناتی کی جا رہی ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ چین کی جارحیت کا سامنا کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ اطمینان بھی دلایا کہ ہندوستانی فوجیں کسی بھی صبورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن جس سنگینی کی طرف انھوں نے اشارہ کیا اس کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

چین کی ان کوششوں کے سبب ہی گزشتہ سال پندرہ جون کو وہ خونی تصادم ہوا تھا جس میں ہندوستان کے بیس جوان شہید ہوئے تھے۔ لیکن جب اس پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سوال اٹھایا تو انھیں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گودی میڈیا نے مودی حکومت کو سچا دیش بھکت اور اپوزیشن جماعتوں کو ملک دشمن ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس معاملے میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ اس واقعہ کے چار روز بعد وزیر اعظم نے ایک بیان میں چین کو کلین چٹ دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ نہ کوئی ہمارے علاقے میں داخل ہوا اور نہ ہی کسی چوکی پر قبضہ کیا اور نہ ہی بھارتی علاقے میں کوئی موجود ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے ایک غیر دستخط شدہ بیان جاری کرکے کہا گیا کہ چینی جوان ایل اے سی پر اپنی جانب تعمیرات کرنا چاہتے ہیں۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

اس سنگین صورت حال کے باوجود حکومت اور خاص طور پر سنگھ پریوار کو دیش بھکتی کا سب سے بڑا سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے۔ عوام کو بھی حقیقت کا علم نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے ان حساس معاملات کے باوجود نہ تو بی جے پی کے تعلق سے عوام میں کوئی بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی مودی کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم ہو پاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گودی میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے اور تمام تر حربے اختیار کرکے اس کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وہی کہے اور کرے جو حکومت چاہتی ہے۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں میڈیا کو آزادی حاصل نہیں ہے اور وزیر اعظم مودی نے میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

ورنہ یہی میڈیا ہے جو یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں بالکل آزاد تھا۔ یہاں تک کہ جب 2008 میں ممبئی پر خوفناک دہشت گردانہ حملہ ہوا تو اس نے حکومت سے خوب سوالات کیے۔ لیکن جب 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ ہوا اور اس میں چالیس سیکورٹی جوان ہلاک ہوئے تو اسی میڈیا نے حکومت سے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ حکومت سے سوال کرنے پر اس نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام عاید کیا کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو ہماری فوج پر اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پلوامہ حملے کی کوئی جانچ رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس واقعہ کو استعمال کرکے جس طرح نریندر مودی نے انتخابی کامیابی حاصل کی اس کے پیش نظر بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

جس وقت ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا اور پولیس اور سیکورٹی جوانوں کی جانب سے جوابی کارروائی کی جا رہی تھی اسی دوران اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ایک پریس کانفرنس کرکے حکومت پر حملہ کیا تھا اور بی جے پی نے اشتہارات شائع کرکے اپیل کی تھی کہ اسے ووٹ دیا جائے اور مرکز کی یو پی اے حکومت کو ہٹایا جائے۔ اس وقت مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ چین کو لال لال آنکھ دکھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب خود برسراقتدار آئے تو ان کی لال لال آنکھ غائب ہو گئی اور وہ چینی صدر شی جن پنگ کو جھولا جھلانے لگے۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

غرضیکہ یہ حکومت دیش بھکتی اور راشٹرواد کا خوب نعرہ لگاتی ہے لیکن خود ان نعروں پر یقین نہیں رکھتی۔ البتہ اگر کوئی اس کی دیش بھکتی اور حب الوطنی پر شبہ ظاہر کرے تو اس کے خلاف ایک محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے اور جنگ آزادی میں آر ایس ایس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بلکہ آر ایس ایس رہنما ویر ساورکر نے تو انگریز حکومت سے معافی مانگی تھی اور آر ایس ایس ہمیشہ جنگ آزادی کے خلاف اور انگریز حکومت کا وفادار رہا۔ ایسے لوگوں سے حب الوطنی کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی توقع کرنا۔ آج بھی یہ لوگ دیش بھکتی اور راشٹر بھکتی کا صرف ڈھونگ رچاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے ان کا کوئی دلی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ دیش بھکتی کے نام پر عوام کو دھوکہ اور فریب دے رہے ہیں۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 03 Oct 2021, 8:11 PM IST