عالمی خبریں

خاشقجی قتل: ترکی کے پاس ایک اور بڑا ثبوت، سعودی موقف کی نفی

ترک روزنامہ ’حریت‘ کے مطابق، آڈیو ریکارڈنگ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی اہلکاروں نے قونصل خانے میں اچانک ہلاک نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لئے پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

تصویر ڈی ڈبلیو
تصویر ڈی ڈبلیو 

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار 59 سالہ سعودی شہری اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت سعودی حکمرانوں کے ناقد جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو ترک شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

استنبول سے جمعہ سولہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ترک میڈیا نے آج بتایا کہ ملکی تفتیشی ماہرین کے پاس اس قتل سے متعلق پندرہ منٹ دورانیے کی ایک اور ایسی ریکارڈنگ بھی موجود ہے، جو خاشقجی کے قتل سے متعلق ریاض حکومت کے اب تک کے موقف کی بھرپور نفی کے لئے کافی ہے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

ترک روزنامہ ’حریت‘ نے لکھا ہے کہ اس آڈیو ریکارڈنگ کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی اہلکاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں اچانک پیدا ہو جانے والی کسی صورت حال کے نتیجے میں ہلاک نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لئے پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

مستقبل میں قانونی اور عدالتی طور پر اگر یہ بات ثابت ہو گئی تو یہ پیش رفت سعودی حکومت کے لیے اس وجہ سے شدید شرمندگی کا باعث بنے گی کہ ریاض حکومت اب تک یہی کہتی آئی ہے کہ خاشقجی کا قتل کسی قبل از وقت منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا۔

دوسری طرف سعودی عرب کے ماہرین استغاثہ نے ابھی کل جمعرات پندرہ نومبر کے روز ہی کہا تھا کہ خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں جن دو درجن کے قریب سعودی شہریوں کو حراست میں لیا گیا تھا، ان میں سے قریب ایک درجن مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

ساتھ ہی سعودی دفتر استغاثہ کی طرف سے یہ بھی کہا گہا تھا کہ ان میں سے پانچ سابق سعودی اہلکاروں کے بارے میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ انہیں سزائے موت دی جانا چاہیے۔ اس بیان کے ساتھ سعودی استغاثہ نے اپنے طور پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل کا ان بالواسطہ الزامات سے کوئی تعلق نہیں کہ اس صحافی کے قتل میں مبینہ طور پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملوث تھے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

ترک تفتیشی ماہرین کو یقین ہے کہ خاشقجی کو سعودی کمانڈوز کی ایک ایسی ٹیم نے قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے، جو خاص اسی مقصد کے لیے استنبول آئی تھی اور جسے علم تھا کہ دو اکتوبر کو جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے جانے والے تھے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

اخبار ’حریت‘ کے مطابق جرم کے ایک ممکنہ ثبوت کے طور پر اس نئی آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے مبینہ طور پر یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ سعودی کمانڈوز کی ٹیم خاشقجی کی آمد سے قبل قونصل خانے میں ان کی منتظر تھی۔ اس دوران اس ٹیم کے ارکان نے اس بارے میں آپس میں مشورے بھی کیے تھے کہ خاشقجی کو کیسے قتل کیا جانا چاہیے تھا۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

یہی نہیں بلکہ ترکی کے پاس یہ ثبوت بھی موجود ہیں کہ خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد ’قاتلوں کی ٹیم‘ نے وہیں سے ٹیلی فون پر انٹرنیشنل کالیں بھی کی تھیں۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

اس خوفناک قتل کے بارے میں ترک صدر ایردوآن ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اس قتل کا حکم ریاض حکومت کی طرف سے ’اعلیٰ ترین سطح‘ پر دیا گیا تھا۔ اسی پس منظر میں ترک وزیر خارجہ نے بھی کل جمعرات کو یہ کہا تھا کہ خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی حکومت نے اب تک جو وضاحت کی ہے، وہ ’ناکافی‘ ہے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

سعودی عرب کی طرف سے اب تک ان مطالبات کو سختی سے مسترد کیا جا چکا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی بین الاقومی سطح پر چھان بین کرائی جانا چاہیے۔ سعودی حکومت یہ بھی بالکل نہیں چاہتی کہ اس قتل کے مشتبہ سعودی ملزمان کو ملک بدر کر کے ترکی بھیجا جائے، جہاں انقرہ حکومت کی خواہش ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ استنبول میں چلایا جانا چاہیے۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Nov 2018, 6:09 PM IST