فٹبال

قطر کا فیفا ورلڈ کپ 2022ء اب تک کا مہنگا ترین ٹورنامنٹ

فی الحال، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ورلڈ کپ 2022ء سے قطر کو کتنا فائدہ ہوگا، لیکن قطرمیں فٹبال کے شائقین کی بڑی تعداد کی آمد متوقع ہے۔

قطر فٹبال عالمی کپ 2022، تصویر آئی اے این ایس
قطر فٹبال عالمی کپ 2022، تصویر آئی اے این ایس 

دوحہ: کسی بھی ملک کے لیے فیفا ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد کروانا آسان ہدف نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ٹورنامنٹ کے میزبان ملک (یا ممالک) کا اعلان 8 سے 10 سال پہلے ہی کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی تیاریاں مطلوبہ وقت تک مکمل کرسکیں۔ ہرعالمی کپ پر ہونے والے اخراجات، گزشتہ کے مقابلے میں عموماً زیادہ ہی ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی کپ کے انعقاد کے لیے زیادہ اخراجات کن چیزوں پر آتے ہیں؟ جب فیفا کسی ملک کو میزبانی کے لیے نامزد کرتا ہے تو کئی سال پہلے نامزدگی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جاسکے۔ عالمی ایونٹ کے میزبان ملک کو اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر اسٹیڈیمز کی تعداد کم ہو تو نئے اسٹیڈیم بنانے پڑتے ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کی رہائش کا انتظام اور شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرنا ہوتا ہے تاکہ میچ دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں پر اس ملک کا تاثر اچھا پڑے۔

Published: undefined

ڈان کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی اخراجات تو فیفا فراہم کرتا ہے تاکہ کام کا آغاز ہوسکے لیکن دیگر اخراجات میزبان ملک کے ذمہ ہوتے ہیں۔ میزبان ملک اس سوچ کے ساتھ سرمایہ کاری کرتا ہے کہ اس عالمی کپ سے اس کی معیشت مضبوط ہوگی۔ ساتھ ہی دیگر ممالک بھی میزبان ملک میں منافعے کی غرض سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ کُل بجٹ میں وہ رقم بھی شامل ہوتی ہے جو ٹیموں، کھلاڑیوں اور فیڈریشنز کو انعامات کی مد میں دی جاتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ورلڈ کپ کے انعقاد کے بعد بڑھنے والی سیاحت اور سرمایہ کاری سے میزبان ملک کی معیشت کس حد تک مضبوط ہوتی ہے۔ پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ماضی میں جو عالمی کپ منعقد ہوئے ان کی تیاری کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ 1990ء سے قبل، فیفا میزبان ممالک کے اخراجات نہیں بتایا کرتا تھا لیکن اب ایونٹ سے پہلے ہی کس چیز پر کتنا خرچہ آرہا ہے سب کی فہرست انٹرنیٹ پر باآسانی مل جاتی ہے۔ گزشتہ عالمی کپ پر ہونے والے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اس طرح کے اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے ہیں:

Published: undefined

1990ء کا ورلڈ کپ۔اٹلی میں منعقد ہونے والے عالمی کپ کا بجٹ 4 ارب ڈالر تھا جبکہ ہوٹلوں، کٹس، ٹکٹوں کی فروخت اور سیاحت کی مد میں اٹلی نے بھاری منافع بھی کمایا۔ 1994ء کا ورلڈ کپ۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ میں منعقد ہونے والے اس ورلڈ کپ میں گزشتہ عالمی کپ سے بھی کم اخراجات ہوئے۔ مجموعی طور پر ایونٹ کی تیاری پر 50 کروڑ ڈالرز کی لاگت آئی۔ 1998ء کا ورلڈ کپ۔ اس کے بعد اگلے فیفا کپ کی میزبانی فرانس نے کی۔ ہوٹلوں، شائقین کے قیام اور ثقافتی سرگرمیوں، اسٹیڈیم کی گنجائش بڑھانے سمیت 1998ء کے ورلڈ کپ پر 2 ارب 33 کروڑ ڈالر کا بجٹ خرچ ہوا۔ فرانس میں 10 مقامات پر میچ کھیلے گئے جس کی وجہ سے میچ اور پروازوں کی ٹکٹوں کی فروخت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔

Published: undefined

2002ء کا ورلڈ کپ۔ جنوبی کوریا اور جاپان نے 2002ء کے عالمی کپ کی مشترکہ طور پر میزبانی کی۔ نئے اسٹیڈیمز کی تعمیر سمیت اس ایونٹ پر 7 ارب ڈالر کی لاگت آئی اور شائقین کی بڑی تعداد کی شرکت کے باعث مقامی فٹبال فیڈریشنز نے غیرمتوقع منافع کمایا۔ 2006ء کا ورلڈ کپ۔ اگلا عالمی کپ جرمنی میں منعقد ہوا اور اس میں بھی حیران کن طور پر پچھلے کے مقابلے میں کم اخراجات ہوئے۔ اس پورے ایونٹ میں کُل 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے اخراجات ہوئے۔ لاگت کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کی جرمنی پہلے ہی اپنے ملک میں ہر سال بندسلیگا جیسی بڑی لیگ کا انعقاد کرواتا ہے جس وجہ سے اس ملک میں اسٹیڈیمز کی تعمیر یا تزئین و آرائش پر زیادہ خرچہ نہیں آیا تھا۔

Published: undefined

2010ء کا ورلڈ کپ۔ 2010ء کے فیفا عالمی کپ کی میزبانی کے لیے جنوبی افریقہ کو نامزد کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے 9 شہروں میں ایونٹ کا انعقاد ہوا اور اس بار اخراجات مزید کم ہوتے ہوئے لاگت 3 ارب 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ بجٹ کم ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ جنوبی افریقہ کو میزبان بنانے کا مقصد فٹبال کی کھیل کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینا تھا۔ یہاں فیفا کے لیے منافع کمانے کا امکان کم تھا اس لیے فیفا اور دیگر سرمایہ کاروں نے اسی تناظر میں اس عالمی کپ میں سرمایہ کاری کی تھی۔

Published: undefined

2014ء کا ورلڈ کپ۔ برازیل میں منعقد ہونے والے 2014ء کے عالمی کپ میں اگرچہ میزبانی کا اعلان کافی عرصے پہلے کردیا گیا تھا مگر اس کے باوجود تعمیراتی کام وقت پر نہیں ہوسکے۔ یہی نہیں بلکہ میگا ایونٹ سے عین پہلے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ مظاہرے، عالمی کپ پر ضرورت سے زیادہ اخراجات، غریب بستیوں کو خالی کروانے کے خلاف اور شہری علاقوں سے عسکری افواج کے انخلا کے لیے کیے گئے تھے۔ ان مظاہروں میں ’فیفا گو ہوم‘ کے نعروں کی صدا گونجتی رہی۔ مگر تمام تر تنقید کے باوجود برازیل عالمی کپ اس وقت کا مہنگا ترین ایونٹ تھا جس پر کُل 15 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ 2018ء کا ورلڈ کپ۔ 2018ء میں روس میں منعقد ہونے والے عالمی کپ میں 11 ارب 60 کروڑ ڈالر کے اخراجات آئے۔

Published: undefined

2022ء کے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی قطر کے حصہ میں آئی۔ واضح رہے کہ قطر عالمی کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا عرب ملک جبکہ دوسرا ایشیائی ملک ہے۔ قطر نے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد ہی تیاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ جیسے جیسے ورلڈ کپ کا انعقاد نزدیک آرہا ہے، شائقین یہ جان کے حیرت زدہ ہیں کہ قطر میں منعقد ہونے والا یہ عالمی کپ کھیلوں کی دنیا کا مہنگا ترین ٹورنامنٹ ہوگا۔

Published: undefined

ملک کی آبادی 2 کروڑ 80 لاکھ ہے لیکن ملک کے حجم کی وجہ سے یہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ قطر نے عالمی کپ کی تیاری کے لیے دل کھول کر پیسے خرچ کیے۔ قطر ورلڈ کپ کی میزبانی کے اخراجات تقریباً 220 ارب ڈالر بتائے جارہے ہیں۔ یہ روس میں منعقد ہونے والے پچھلے فٹبال ورلڈ کپ کی لاگت سے تقریباً 20 گنا زیادہ ہے۔ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ تاریخ کا مہنگا ترین عالمی کپ ہے؟ ایسا کیا ہے جو قطر کو دیگر میزبان ممالک سے مختلف بنا رہا ہے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

Published: undefined

قطر کے پاس نامزدگی سے قبل ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے لائق عالمی معیار کا کوئی اسٹیڈیم موجود نہیں تھا۔ لہٰذا اسٹیڈیم کی تعمیر پہلا مقصد تھا۔ قطر نے عالمی کپ کے 64 میچوں کے لیے 8 اسٹیڈیمز بنائے ہیں۔ تمام اسٹیڈیم دارالحکومت دوحہ کے 55 کلومیٹر کی حدود کے دائرے میں واقع ہیں جہاں تماشائیوں کی بڑی تعداد کے لیے گنجائش موجود ہے۔ ساتھ ہی قطر وہ پہلا ملک ہے جس نے عالمی کپ کے میچوں کے لیےعارضی اسٹیڈیم بنایا ہے۔ اس اسٹیڈیم کو ’اسٹیڈیم 974‘ کا نام دیا گیا ہے جو قطر کا ڈائلنگ کوڈ بھی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اسے بنیادی طور پر ری سائیکل شدہ مواد سے بنایا گیا ہے اور ان میں زیادہ تعداد شپنگ کنٹینروں کی ہے۔

Published: undefined

ورلڈ کپ کے اختتام پر جب اسٹیڈیم کی مزید ضرورت نہیں رہے گی تب اس اسٹیڈیم کو ختم کر دیا جائے گا اور تمام ری سائیکل مواد ترقی پذیر ممالک کو عطیہ کر دیا جائے گا۔ اس عمل نے قطر پر ہونے والی عالمی تنقید کو کچھ حد تک کم کر دیا ہے۔ تمام اسٹیڈیم کی تعمیر میں تقریباً 6 سے 10 ارب ڈالر کی لاگت آئی جبکہ بقیہ اخراجات قطر قومی پلان 2030ء پر ہوئے۔ ورلڈ کپ کا انعقاد قطر کے وژن 2030ء کا حصہ ہے۔ قومی وژن کا مقصد ہے کہ 2030ء تک قطر ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن جائے جو اپنی ترقی کو برقرار رکھے اور اپنے لوگوں کے لیے اعلیٰ معیارِ زندگی فراہم کرنے کے قابل ہو۔ یہ پلان انفراسٹرکچر کی تعمیر پر مرکوز ہے جس میں ہوٹلوں کے ساتھ ایک اختراعی مرکز کی تعمیر، ایک جدید ترین سب وے نیٹ ورک اور ہوائی اڈے شامل ہے۔

Published: undefined

اس ٹورنامنٹ کے لیے مواصلات کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فاطمہ النعیمی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ان تینوں چیزوں کی تعمیرعالمی کپ کے بعد قطر کی زندگی میں جدت لانے کے وسیع وژن کا حصہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے منصوبے ہیں جو 2022ء میں ٹیمیں اور شائقین استعمال کریں گے جیسے کہ نئی سڑکیں، سب وے، ہوائی اڈہ، ہوٹل اور دیگر سیاحتی سہولیات کی منصوبہ بندی ہم نے ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے سے پہلے ہی کرلی تھیں‘۔ بڑی سرمایہ کاری کے بعد 2019ء میں دوحہ کے سب سے بڑے جدید زیرِ زمین سب وے نظام کا افتتاح کیا گیا جس کی تعمیر پر 36 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا جو ٹورنامنٹ کے دوران شہر بھر میں تیزی سے سفر کرنا چاہیں گے۔

Published: undefined

قطر کے عالمی کپ پر بے جا اخراجات اور تعمیراتی کاموں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف وریوں نے دنیا کو اس پر تنقید کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دوسری جانب رہائشی بھی قطر حکومت کی بے پروائی سے نالاں ہیں۔ مہنگی ہوتی اشیا اور رہائش کی وجہ سے بہت سے لوگ پڑوسی عرب ممالک نقل مکانی کر رہے ہیں۔ مگر تمام تنقید اور قیاس آرائیوں کے باوجود قطر پُرامید ہے کہ یہ آنے والا ورلڈ کپ اس کی ثقافت کو ایک نئی پہچان دلانے میں مدد فراہم کرے گا۔ فی الحال، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ورلڈ کپ 2022ء سے قطر کو کتنا فائدہ ہوگا، لیکن قطرمیں فٹبال کے شائقین کی بڑی تعداد کی آمد متوقع ہے۔

Published: undefined

قطر نے 2022ء میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے اخراجات کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور اب صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ قطر اس عالمی کپ کے انعقاد کے بعد اپنے وژن 2030ء کے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوپائے گا یا نہیں اور اس جیسے دیگر سوالات بھی ہیں جن کے جوابات کے حصول کے لیے ہمیں قطر فیفا عالمی کپ کے اختتام پذیر ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined