ثقافت

جرمنی: دستی پوسٹروں کا فن بچ پائے گا؟

فلمی دنیا میں اب ہاتھ سے بنے پوسٹروں کی جگہ پرنٹ شدہ پوسٹر لیتے جا رہے ہیں۔ اب بہت ہی کم فلموں کے پوسٹر ہاتھ سے پینٹ کیے جاتے ہیں۔ برلن میں مقیم پینٹر گوئٹس والین ابھی تک اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

جرمنی: دستی پوسٹروں کا فن بچ پائے گا؟
جرمنی: دستی پوسٹروں کا فن بچ پائے گا؟ 

چاہے کوئی سائنس فکشن فلم ہو یا کامیڈی، جرمنی کے دارالحکومت برلن میں لگے گوئٹس والین کے بڑے بڑے فلمی پوسٹر اس شہر کی ثقافت کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔ گوئٹس والین فلموں کو مزید بڑا بناتے ہیں۔ وہ فلمی پوسٹر بنانے والے آخری پینٹرز میں سے ایک ہیں۔

Published: undefined

’فلم اصل آرٹ ہے‘

گوئٹس والین کا کہنا ہے کہ انہیں فلمیں پسند ہیں۔ ان کے خیال میں فلم سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ اصل میں ایک آرٹ ہے،’’میں آرٹ اور فلم میں کوئی بڑی تفریق نہیں کرتا۔ یہ میرے لیے آرٹ کی ایک بہترین شکل ہے۔ آپ اسے پاپ آرٹ یا ہمارے زمانے کا مقبول آرٹ کہہ سکتے ہیں۔ فلموں کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔"

Published: undefined

گوئٹس والین کا مزید کہنا ہے، "میں بنیادی طور پر پروجیکٹر کے ذریعے عکس سکرین پر ڈالتا ہوں لیکن اس طرح کہ بڑی اسکرین پر میری مکمل نظر رہے۔ کیوں کہ قریب سے ویسا نظر نہیں آتا جیسا دور سے آتا ہے۔"

Published: undefined

سب سے مشکل کام صحیح تناسب حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ سکرین پانچ بائی نو میٹر کی ہوتی ہے۔ اور یہ فلم کے ایک عام پوسٹر سے تقریباً 45 گنا زیادہ ہے۔ گوئٹس والین بڑے حصوں پر ایک سپرے گن کے ساتھ پینٹ کرتے ہیں۔

Published: undefined

بہتر کرنے کی کوشش

گوئٹس والین کے بقول، "میں کام کرتے ہوئے ہی سوچتا ہوں کہ اِسے کیسے کرنا ہے، کوئی خاص پلان نہیں ہوتا۔ سب کچھ بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر تصویر مختلف ہوتی ہے، ہر تصویر میں رنگوں اور ساخت کے مختلف چیلنجز ہوتے ہیں۔ اور پھر میں انہیں جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔

Published: undefined

گوئٹس والین کو ایک آرڈر مکمل کرنے میں تقریباﹰ دو دن لگتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے بنے ایک فلمی پوسٹر کی قیمت آٹھ سو یورو ہے۔ یہ مصوری کی درست تکنیک کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ باریک بینی کا کام برش سے کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

سب کچھ آنا چاہیے

گوئٹس والین کے مطابق، "یہ کام ہر چیز کا مرکب ہے۔ آپ کو بیلی ڈانسر کی طرح انتہائی فٹ اور چست ہونا چاہیے۔ آپ کو تیز حرکت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ آپ کو کسی نہ کسی طرح ایک ہی وقت میں سب کچھ کرنے کے قابل ہونا پڑتا ہے لیکن آپ کو پینٹ کرنا بھی آنا چاہیے۔ یہ بات مبالغہ آمیز لگتی ہے لیکن آپ کو بہادر بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب آپ صبح یہاں کھڑے ہوتے ہیں اور آپ کے سامنے نو میٹر کی سفید سکرین ہو اور شام تک درحقیقت ہر چیز اس پر ہونا چاہیے تو پھر آپ کو اس دریا میں چھلانگ لگانے کے قابل بھی ہونا چاہیے۔"

Published: undefined

ویانا میں مصوری کی تعلیم

گوئٹس والین نے برلن آنے سے پہلے ویانا میں مصوری کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنا پہلا فلمی پوسٹر انیس سو بانوے میں بنایا تھا اور اب تک ایسے دو ہزار پوسٹر بنا چکے ہیں۔ اپنے فن کے ذریعے وہ ان پوسٹروں میں حقیقت کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Published: undefined

گوئٹس والین کا کہنا ہے، "میں اپنے تیس سالہ تجربے کے بعد آپ کو ایک پرنٹ شدہ اور ہاتھ سے پینٹ کردہ پوسٹر میں فرق بتاتا ہوں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، ایک تصویر میں چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی قید ہو جاتی ہے۔ جبکہ پوسٹر میں، میں ان چیزوں پر توجہ دیتا ہوں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس طرح آپ اضافی چیزوں میں کمی لا سکتے ہیں۔

Published: undefined

فلم کامیاب تو آرڈر کم

ان کے بقول ویسے اگر کوئی فلم بہت کامیاب ہو جائے تو اِن کو آرڈر بھی کم ملتے ہیں، "اگر کوئی فلم تین یا چار مہینے اور تمام سینما گھروں میں چلتی رہے تو پھر ہمارے پاس تین یا چار ماہ کے لیے کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ٹائٹینک کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ اتنی زیادہ چلے گی اور پھر ہم تین ماہ تک بیروزگار رہے۔

Published: undefined

یہ صرف بلاک بسٹرز ہی نہیں جو ان کی زندگی مشکل بنا دیتی ہیں۔ آج کل بہت کم سینما گھر ہاتھ سے پینٹ شدہ فلمی پوسٹروں کی قیمت برداشت کر پاتے ہیں۔ اب اس فن کے معدوم ہو جانے کا خطرہ ہے۔ تاہم گوئٹس والین کے حوصلے بلند ہیں، وہ اپنا کام جاری رکھنے کے لیے پرجوش ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined