فکر و خیالات

کیا ٹیپو سلطان بی جے پی کا بیڑا پار لگائیں گے؟

بی جے پی اگرچہ کرناٹک میں بیک فٹ پر دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کو قوی امید ہے کہ اس کی  فرقہ وارانہ مہم اسے  اپریل-مئی میں متوقع اسمبلی انتخابات میں فائدہ پہنچائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>ٹیپو سلطان، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

ٹیپو سلطان، تصویر آئی اے این ایس

 

کرناٹک میں پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل فرقہ وارانہ مہم دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی بین الاقوامی سرخیاں بنیں، تبدیلی مذہب بل منظور کیا گیا، مسلمان تاجروں کو ہندو تہواروں پر سامان فروخت کرنے سے روک دیا گیا، ہندوؤں کو تاکید کی گئی کہ وہ مسلمانوں سے پھل بھی نہ خریدیں، مندروں میں آنے والے لوگوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ صرف سبزی خوروں سے ٹیکسیاں کرایہ پر لیں، کلاس رومز کو زعفرانی رنگ میں رنگا گیا اور فرقہ وارانہ فسادات نے ہبلی کو ہلا کر رکھ دیا جس کے لیے بی جے پی حکومت نے پچھلی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک وائرل ویڈیو میں ایک مسلم یونیورسٹی کے طالب علم کو ایک استاد پر اعتراض کرتے ہوئے دیکھا گیا جس نے اسے ایک پاکستانی دہشت گرد سے جوڑ دیا تھا۔

Published: undefined

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ جب وزیر داخلہ امت شاہ، جنہوں نے پچھلے دو مہینوں میں پانچ بار کرناٹک کا دورہ کیا، ایک سیاسی ریلی میں اعلان کیا کہ کانگریس یا جے ڈی (ایس) کو ووٹ ان لوگوں کے لیے ووٹ ہوگا جو 'ٹیپو سلطان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ مقابلہ ٹیپو سلطان کے حامیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ہے یعنی یہ مقابلہ ان کے درمیان ہوگا جو ’مندروں کی تعمیر‘ کرتے ہیں اور جو ٹیپو سلطان کی تعریف کرتے ہیں اس بار کرناٹک میں اپریل مئی 2023 میں ہونے اسمبلی انتخابات ونائک دامودر اور ٹیپو سلطان کے درمیان ہوں گے اور اس کا علان بی جے پی کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی سڑکیں اور سیوریج کے مسائل بہت چھوٹے مسئلہ ہیں اس سے کہیں زیادہ اہم لوجہاد کا مسئلہ ہے۔

Published: undefined

سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر سدارمیا کا بی جے پی لیڈروں اور پارٹی کے ایم ایل اے سی ٹی روی نے مذاق اڑایا اور ان کا نام سدارم اللہ خان رکھا۔ بی جے پی کے وزیر سی این اشوتھ نارائنا کو افسوس کا اظہار کرنے پر مجبور کیا گیا جب ان کے عوامی بیان کہ سدارامیا کو ٹیپو کی طرح ’ختم‘ کر دیا جانا چاہیے، ان کے اس بیان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس مہم کے ایک حصے کے طور پر، بی جے پی کی ریاستی حکومت نے 24-2023 کے بجٹ کی تجویز کے طور پر، رام نگر میں جہاں بلاک بسٹر فلم شعلے کی شوٹنگ کی گئی تھی وہاں رام مندر کی تعمیر کا اعلان کیا۔ راما نگر جو بی جے پی کا ’جنوب کا ایودھیا‘ ہے اور وہاں ووکلیگا کا غلبہ ہے اور ریاستی کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار کا آبائی ضلع ہے جس کی نمائندگی سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی کرتے ہیں۔

Published: undefined

ماہر لسانیات اور ثقافتی کارکن گنیش دیوی کا کہنا ہے کہ وہ ڈھٹائی سے نفرت انگیز تقریر، فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیزی سے پریشان ہیں۔ وہ حیران ہیں کہ کرناٹک کا ساورکر سے کیا لینا دینا۔ " ہندوستانی مسلمانوں کو غدار کے طور پر پیش کرنا آزادی کی تاریخ سے جہالت کو دھوکہ دینا ہے۔'' وہ کہتے ہیں کہ ٹیپو سلطان، جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں کے خلاف لڑے، ساورکر کے برعکس کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔

Published: undefined

عظیم پریم جی یونیورسٹی کے اسکول آف پالیسی اینڈ گورننس کے پروفیسر اے نارائنا کہتے ہیں، ’’ریاست میں بی جے پی حکومت کے پاس اپنی کامیابیوں کے طور پر دکھانے کے لیے بہت کم ہے اور اسے مودی کے کرشمے اور ووٹوں کے پولرائزیشن پر انحصار کرنا پڑے گا۔‘‘ کیا ووٹر نفرت سے متاثر ہیں؟ ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ بی جے پی ذات پات اور فرقہ وارانہ دونوں کارڈ کھیلے گی، کیونکہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اور دکھانے کے لیے بہت کم ہے۔ دیوی بتاتے ہیں ’’یہ بی جے پی ایم ایل اے نفرت انگیز تقاریر کرنے کے لیے منتخب نہیں ہوئے تھے۔ صنعتیں کرناٹک سے باہر حیدرآباد منتقل ہو رہی ہیں، تعلیم کا معیار گر رہا ہے، بدعنوانی بڑھ رہی ہے لیکن حکومت نفرت انگیز تقاریر میں اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

تھیٹر کی معروف شخصیت ظفر محی الدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی میں مایوسی ہے۔ بی جے پی ماضی میں کیوں جی رہی ہے، کیونکہ وہ 400 سال پرانی تاریخ کو کھود کر اسے موجودہ تناظر سے جوڑ رہی ہے؟ محی الدین کہتے ہیں کہ بی جے پی کو فرقہ وارانہ سیاست کا فائدہ ہو گا، انہیں یہ واضح ہے کہ ریاست کے 13 فیصد مسلم رائے دہندگان ان کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ انہیں مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ محی الدین کا کہنا ہے کہ یہ سیکولر پارٹیاں ہی اس الجھن کا شکار نظر آتی ہیں کہ نفرت اور بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے کیسے نمٹا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined