ماں نے کیوں اپنے پانچ کمسن بچوں کو مار ڈالا؟

جرمن شہر زولنگن میں ایک خاتون پر اپنے پانچ کم سن بچوں کو ہلاک کرنے کا شک کیا جا رہا ہے۔ یہ عورت ستائیس سال کی ہے۔ اب سوال یہ پوچھے جا رہے ہیں کہ کیسے اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے؟

زولنگن المیہ اور کم عمر ماؤں کے مسائل زیر بحث
زولنگن المیہ اور کم عمر ماؤں کے مسائل زیر بحث
user

ڈی. ڈبلیو

اس دل دہلا دینے والے واقعے میں ہلاک کیے جانے والے بچوں کی عمریں آٹھ، چھ، تین، دو اور ایک برس تھیں۔ ابھی تک جو بھی معلومات دستیاب ہیں، وہ مبہم اور بظاہر ادھوری دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ عورت اور بچے کن حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ کچھ بھی ظاہر نہیں کہ اس المیے کی وجوہات کیا تھیں۔

صرف ایک حقیقت معلوم ہو سکی ہے کہ پانچ بچوں کو ہلاک کرنے والی ماں کا ایک بچہ بچ گیا ہے۔ وہ سب سے بڑا اور اس کی عمر گیارہ برس ہے۔ ان بچوں کے قتل کی وجہ سے فوری طور پر جرمنی میں کئی افراد کی توجہ نو عمر یا ٹین ایجر ماؤں کے حالات کی جانب مرکوز ہو گئی ہے کہ انہیں کتنی اور کس حد تک مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔


ہمسایوں کی رائے اور تبصرے

زولنگن میں جس مکان میں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اس کے ہمسایوں کا کہنا ہے کہ عورت اور اس کے پارٹنر میں اکثر و بیشتر شدید تلخ اور تشدد آمیز سخت جملوں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو یقینی طور پر نظرانداز کیا جاتا تھا اور استحصالی حالات تفتیش میں چھپانا مشکل ہوں گے۔


دوسری جانب جرمن ادارے چائلڈ پروٹیکشن ایسوسی ایشن نے عام لوگوں اور میڈیا کو تلقین کی ہے کہ قبل از وقت تبصرے اور خود ساختہ نتیجوں سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ اس معاملے کی فوجداری تفتیش جاری ہے۔

ٹین ایجر مائیں اور حکومتی تحفظ


یہ امر اہم ہے کہ ٹین ایجر ماؤں کو جرمنی میں مشاورت حاصل کرنے کا قانونی حق میسر ہے۔ اس کے لیے غیر حکومتی تنظیمیں بھی متحرک ہیں۔ شہروں اور قصبوں کی بلدیہ میں یوتھ ویلفیئر سروس کا شعبہ بھی موجود ہے، جو ٹین ایجرز کو کونسلنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ مشاورت کا یہ عمل بغیر کسی فیس کے دستیاب ہے۔

اسی طرح ٹین ایجر دور میں ماں بننے والی لڑکیوں کو بھی مشاورت فراہم کی جاتی ہے اور وہ مالی امداد کی درخواست بھی دینے کا حق رکھتی ہیں۔ اس مالی امداد میں اپارٹمنٹ کی تلاش اور حصول، بچے کی نگہداشت کا معاملہ، سکول یا ملازمت میں پیدا ہونے والے مالی اور دوسرے پریشان کن مسائل کے حل کے لیے فری کونسلنگ کی خدمات شامل ہیں۔


ٹین ایجر ماؤں کے لیے دیگر سہولیات

ٹین ایج میں ماں بننے والی لڑکیوں کی طبی نگہداشت اور معائنے کے لیے گائناکولوجسٹ کی فراہمی بھی بلدیہ کی جانب سے کی جاتی ہے۔ نسائی امور کی ڈاکٹر تک رسائی کی وجہ کم سنی میں حاملہ ہونے کے بعد کی پیچیدگیوں سے نمٹنا اور تواتر کے ساتھ معائنے شامل ہوتے ہیں۔ اس میں ہیلتھ انشورنس بھی مہیا کی جاتی ہے۔


اس کے علاوہ شہروں اور قصبوں کی بلدیہ میں یوتھ ویلفیئر کا دفتر ایسی ٹین ایجر ماؤں کی عمومی زندگی کا جائزہ بھی لیتا رہتا ہے۔ وہ اس پر بھی نظر رکھتا ہے کہ آیا ایسی ماؤں کے بچے باقاعدگی سے اسکول جاتے ہیں اور خود اس نے اپنی ووکیشنل ٹریننگ مکمل کر لی یا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے یا اسے مالی امداد کی واقعی ضرورت ہے۔ ضرورت کے مطابق ایسی لڑکیوں کو ماں اور بچہ ہومز میں رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے۔

یوتھ آفس کا بنیادی مقصد ٹین ایجر ماؤں کی مشکلات اور مسائل کو کم کرنا ہے۔ اگر کسی بچے کے والدین اٹھارہ برس سے کم ہوتے ہیں تو پھر بچے کی کفالت کی ذمہ داری یہ دفتر اٹھا لیتا ہے۔ کفالت سپرد کرنے کی درخواست ٹین ایجر ماں کو دینی ہوتی ہے۔ اس صورت حال کے لیے کئی تنظیمیں بھی متحرک ہیں اور وہ ٹین ایجر ماؤں کو ضروری بنیادی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جرمن وزارت برائے یوتھ اور فیملی کا شعبہ 'فاؤنڈیشن اَرلی اسِسٹینس‘ اور مسیحی غیر حکومتی تنظیم کاریتاس بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔


جرمنی میں ٹین ایجر ماؤں کی شرح

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمنی میں بقیہ یورپی ممالک کے مقابلے میں ٹین ایجر ماؤں کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں ایسی کم عمر ماؤں کے شرح صرف دو فیصد ہے لیکن سن 2019 میں حکام نے اس میں اضافے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ یورپ کے کمزور اقتصاد کے حامل ملکوں مثلاً رومانیہ اور بلغاریہ میں ٹین ایجر لڑکیوں کے ماں بننے کی شرح آٹھ فیصد سے بھی زائد ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔