متحدہ عرب امارات کو جوڑتا ریلوے نیٹ ورک سست روی کا شکار

خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کا بنیادی ڈھانچہ خوش آئند اقدامات اور متنوع مگر جدید ٹیکنالوجی منصوبوں کا مرہونِ منت ہے۔ اب اس عرب ملک کی تمام وفاقی ریاستوں کو ریل رابطوں کے ذریعے آپس میں جوڑا جا رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کو جوڑتا ریلوے نیٹ ورک سست روی کا شکار
متحدہ عرب امارات کو جوڑتا ریلوے نیٹ ورک سست روی کا شکار
user

Dw

یہ ریلوے نیٹ ورک اپنی تکمیل کے بعد 'اتحاد ریل‘ کہلائے گا۔ متحدہ عرب امارات کی سات وفاقی ریاستوں میں اس نیٹ ورک کی لمبائی ایک ہزار دو سو کلو میٹر ہو گی۔ ابو ظہبی کے انتہائی مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں الغویفات سے شروع ہو کر ریل کی پٹڑی باقی ریاستوں میں سے گزرتی ہوئی مشرقی ساحل پر واقع ریاست فجیرہ تک جائے گی۔ اس مقام پر اگلے برسوں میں اس ریل لنک کو سعودی عرب کے ریلوے نیٹ ورک سے جوڑ دیا جائے گا۔

ریل نیٹ ورک کا وسیع تر مقصد

متحدہ عرب امارات میں بچھایا جانے والا نیٹ ورک اصل میں خلیجی تعاون کونسل کے ایک طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس پلان کے تحت خلیجی تعاون کونسل کی رکن سبھی ریاستوں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جانا ہے۔ اس کونسل میں شریک ریاستوں میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اس وقت یو اے ای کی تمام ریاستوں میں پائے جانے داخلی مفادات کو محفوظ رکھنے کی وجہ سے اس قومی نیٹ ورک کی تکمیل کی راہ میں بعض مسائل کھڑے ہیں۔


اس ریل نیٹ ورک کے حوالے سے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی ریسرچر کیرن ینگ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں فیڈرل سسٹم ہے اور وفاق کی سطح پر اس پراجیکٹ کے لیے مزید اقتصادی مراعات دینے میں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ ینگ کے مطابق اس کی بنیادی وجہ تمام ریاستوں میں پائی جانے والی روایتی خود مختاری کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہے۔

منصوبے میں تاخیر

خلیجی تعاون کونسل کا ریل نیٹ ورک کا منصوبہ کئی بلین ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جانا ہے۔ اس کی منظوری سن 2004 میں دی گئی تھی اور سترہ برس بعد بھی فی الحال یہ نامکمل ہی ہے۔ تمام وفاقی ریاستوں نے اپنے اپنے سرکاری اجلاسوں میں اس منصوبے کے موزوں اور قابل عمل ہونے سے متعلق رپورٹوں کی منظوری دی تھی۔


کیرن ینگ کا خیال ہے کہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور جزیرہ نما عرب میں علاقائی تنظیموں کی مالی ترقی اور اقتصادی ادغام جیسے بڑے مقاصد بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس اقتصادی انضمام میں اب بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں، جن میں خلیجی تعاون کونسل کی سطح پر ایک مشترکہ کرنسی اپنانے میں تاخیر اور قطر کے ساتھ تنازعہ خاص طور پر نمایاں ہیں۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی اس محققہ کے مطابق سرمایہ کاروں کے حقوق اور شہریوں کی آمد و رفت کے علاوہ کئی تجارتی امور بھی حل طلب ہیں۔ قطر کے ساتھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا تنازعہ تین برس تک جاری رہنے کے بعد رواں برس جنوری میں ختم ہو گیا تھا۔


ابو ظہبی میں بچھائی گئی ریلوے لائن

متحدہ عرب امارات میں شامل مغربی ریاست ابو ظہبی کے دور افتادہ گاؤں الغویفات سے بچھائی جانے والی ریل کی پٹڑی دو سو چونسٹھ کلومیٹر طویل ہے۔ اس پر ریل گاڑی سن 2016 میں چلنا شروع ہو گئی تھی۔ اس ٹریک پر ابھی تک صرف مال بردار ریل گاڑی ہی چلائی جاتی ہے۔

اس کارگو ٹرین کے ذریعے ابوظہبی کی صحرائی علاقے سے نکالی جانے والی گندھک اور خام تیل کو شاہ اور حبشان کے مراکز سے الرویس کی بندرگاہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس بندرگاہ سے یہ خام سامان پھر دوسرے ممالک کو بحری جہازوں کے ذریعے روانہ کیا جاتا ہے۔


اب اس ریلوے ٹریک کو اونچی نیچی پہاڑیوں میں سے نکال کر دبئی اور فجیرہ تک پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ٹریک پر آئندہ چلنے والی مسافر بردار ریل گاڑیوں کی کم سے کم رفتار دو سو کلو میٹر (125 میل) فی گھنٹہ ہو گی۔ یہ ان عرب ریاستوں میں مسافروں کے لیے سفر کا ایک محفوظ متبادل ذریعہ ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */