بھارت: اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بڑھتی ہوئی 'دشمنی'

حالیہ دنوں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو اساتذہ اور طالب علموں کے باہمی اعتماد اور رشتوں میں مسلسل انحطاط کا پتہ دیتے ہیں۔ ٹیچر کی پٹائی سے طالب علم کی موت اور ٹیچر کو سرعام ذلیل کرنے کے واقعات عام ہیں۔

بھارت: اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بڑھتی ہوئی 'دشمنی'
بھارت: اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بڑھتی ہوئی 'دشمنی'
user

Dw

گزشتہ ماہ اترپردیش کے اوریا ضلع میں دسویں جماعت کے ایک طالب علم نکھل کی اس کے ٹیچر نے صرف اس لیے بری طرح پٹائی کر دی کہ وہ ایک سوال کا جواب نہیں دے پایا۔ نکھل کی چند دنوں بعد ہسپتال میں موت ہو گئی۔

دو ماہ قبل جھارکھنڈ کے دمکا میں چند طلبہ نے کچھ اساتذہ کو پکڑ کر نہ صرف ایک درخت سے باندھ دیا اور سرعام پٹائی کی بلکہ اس پورے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ طلبہ کا الزام تھا کہ ٹیچرز نے جان بوجھ کر انہیں امتحانات میں کم نمبر دیے تھے۔


ماہرین تعلیم اور ماہرین سماجیات اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم اعتماد، عدم احترام اور رشتوں میں انحطاط پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

مسلسل واقعات

چند دنوں قبل اترپردیش کے رائے بریلی کے ایک پرائیوٹ اسکول میں ساتویں جماعت کے ایک طالبعلم نے پھانسی لگا کر خود کشی کرلی۔ وہ امتحان کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور اسے سب کے سامنے سزا دی گئی تھی۔ طالب علم نے اپنے سوسائیڈ نوٹ میں لکھا کہ ٹیچرز کے علاوہ اس کے ہم جماعت بھی اسے طعنے دے رہے تھے۔


ستمبرکے اواخر میں بہار کے گیا ضلعے میں ایک پرائیوٹ اسکول کے چھ سالہ بچے کو ہوم ورک نہ کرنے پر ٹیچر نے اس بری طرح پیٹا کہ اس کی موت ہو گئی۔ بچہ زخمی حالت میں اسکول کے باہر پڑا ہوا ملا تھا۔ اس کے چہرے پر ورم تھا اور ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے اس نے راستے میں دم توڑ دیا۔

یوپی کے سیتاپور ضلعے میں بارہویں کے ایک طالب علم نے پرنسپل پر کالج کے احاطے میں ہی گولیاں چلا دیں۔ وہ اپنی زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں۔ طلبہ کے دو گروپ میں تکرار کو سلجھانے کے دوران پرنسپل رام سنگھ ورما نے مذکورہ طالب علم کو پیٹ دیا، جس سے وہ ناراض تھا۔


بھارت میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ''دشمنی" کے ایسے واقعات آئے دن کا معمول ہیں۔ کبھی طالب علم شکار بن جاتا ہے تو کبھی ٹیچر۔ لیکن ان واقعات کی طرف لوگوں کی توجہ صرف اسی وقت جاتی ہے، جب کوئی واقعہ سنگین رخ اختیار کر لیتا ہے۔

ٹیچروں کا المیہ

معروف ماہر تعلیم میتا سین گپتا کہتی ہیں کہ ٹیچروں کو تنگ کرنا، اسکول کے باہر ان کی عزت نہ کرنا اور ان کا مذاق اڑانا کوئی نئی بات نہیں، لیکن ٹیچرز پر حملوں کے بارے میں بالعموم سننے کو نہیں ملتا تھا تاہم اب یہ بھی معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔


سین گپتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سرکاری اور میونسپل اسکولوں میں ٹیچرز کے خلاف تشدد کے واقعات توعام ہیں لیکن پرائیوٹ اور نامور اسکول بھی اس سے مستشنٰی نہیں۔ اسکول کی انتظامیہ معاملے کو رفع دفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اسکول کی بدنامی کا واسطہ دے کر متاثرہ ٹیچرز کو شکایت درج کرانے سے روک دیتی ہے، ''خطرہ، تشدد اور احتیاط بھارت میں نظام تعلیم کا ایک عرصے سے حصہ ہیں لیکن کوئی کھل کر ان پر بات کرنا نہیں چاہتا۔"

اسکولوں کے تعلیمی نظام پر ایک عرصے سے کام کرنے والے سنجیو رائے نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "تشدد کے کچھ واقعات تو سامنے آ جاتے ہیں لیکن بیشتر واقعات کا پتہ نہیں چلتا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ٹیچرز سے توقع تو بہت کرتے ہیں لیکن نہ تو طلبہ اور نہ ہی ان کے سرپرست اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو اسکولوں کے ٹیچرز خوف کے ماحول میں رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں طلبہ کے ساتھ مار پیٹ یا جنسی استحصال کے الزامات تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔"


ذہنی دباؤ

سنجے رائے کہتے ہیں کہ ٹیچرز بھی کئی مرتبہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پاتے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اب طلبہ کو پیٹنے حتی کہ ڈانٹنے کے خلاف بھی قانون بن چکے ہیں اور "سرپرست ان قوانین کا غلط استعمال کرنے کے لیے اکثر تیار بیٹھے رہتے ہیں۔" ان کے مطابق نویں سے بارہویں جماعت کے طلبہ کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

لکھنؤ کے ایک انٹرکالج کے ٹیچرز ڈاکٹر سریندر بھدوریا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "نویں اور بارہویں کے بچوں کو تو ٹیچرز شاید اب کبھی نہیں مارتے، پڑھنے لکھنے کے لیے تو بالکل ہی نہیں،کیونکہ ٹیچرز کو بھی پتہ ہے کہ انہیں قانونی کارروائیوں کا شکار ہونا پڑ سکتا ہے، جس سے بچ پانا مشکل ہو گا۔ ایسی حالت میں ٹیچرز طلبہ کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔"


سریندر بھدوریا کہتے ہیں، ''ٹیچرز ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں کہ کہیں ان سے کوئی ایسی خطا نہ ہو جائے، جس سے نہ صرف ان کی ملازمت بلکہ ان کی جان پر بھی بن آئے۔ بھارتی سماج میں اب پہلے کی طرح اساتذہ کا احترام نہیں رہ گیا ہے۔‘‘

سماجی تفریق بھی موجود

بھارت کےذات پات والے سماج کا اثر نظام تعلیم اور اسکولوں پر بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ دہلی سے ملحق غازی آباد کے ایک نجی اسکول کی ٹیچر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دیہی علاقوں اور میٹروپولیٹن شہروں کے اسکولوں میں تفریق کی صورت حال اور پیمانے الگ الگ ہیں، ''اقتصادی طور پر کمزور زمرہ کے کوٹے کے تحت نجی اسکولوں میں داخلہ پانے والے طلبہ کے ساتھ اکثر تفریق کی جاتی ہے اور ان کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان کے سرپرست غریب اور کمزور طبقے کے ہوتے ہیں اس لیے وہ اکثر شکایت بھی نہیں کر پاتے۔‘‘


سنجیو رائے کا خیال تھا کہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ پرتشدد رویے والے طلبہ اور ٹیچرز دونوں کی ہی مشاورت ہونی چاہیے تاکہ کوئی ناخوشگوار صورت پیدا نہ ہونے پائے۔

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں ہونے والے واقعات کو روکنے کے لیے نہ صرف طلبہ اور ٹیچرز کی اصلاح ضروری ہے بلکہ طلبہ اور ان کے سرپرستوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ٹیچر کسی طالب علم کی سرزنش کر رہا ہے تو یہ اس کے فائدے کے لیے ہی ہو گا تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیچر کو بھی طالب علم کو سزا دینے کی حد کا احساس ہونا چاہیے۔

جاوید اختر

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔