گجرات فسادات میں مودی کو کلین چٹ کی اب سپریم کورٹ سے بھی تصدیق

ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے گجرات فسادات کے دوران گلبر گ سوسائٹی کیس میں نریندر مودی کی کلین چٹ دے دی تھی۔ اس 'قتل عام' میں مارے گئے کانگریسی رکن پارلیمان احسان جعفری کی اہلیہ نے یہ عرضی دائر کی تھی۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

سن 2002 میں گجرات فسادات کے دوران احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے "قتل عام" کیس میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلی نریندر مودی کو فسادات کی تفتیش کرنے والی ایک خصوصی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے کلین چٹ دے دی تھی۔ اس کے خلاف ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی، جن کے شوہر کانگریس کے رکن پارلیمان احسان جعفری گلبرگ سوسائٹی میں فسادیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے 68 افراد میں شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کی طرف سے دی گئی کلیئرنس کو برقرار رکھا اور ذکیہ جعفری کی درخواست "قانونی لحاظ سے ناموافق" قرار دیتے ہوئے جمعہ 24 جون کو مسترد کر دی۔


ذکیہ جعفری نے گجرات ہائی کورٹ کی طرف سے 5 اکتوبر 2017 کو دیے گئے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں عدالت عالیہ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ پر احمد آباد میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے گجرات میں فسادات کے متعلق کئی کیسز میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور 63 دیگر افراد کو کلین چٹ دے دی تھی۔

سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ ذکیہ جعفری کی عرضی پر سماعت کررہی تھی اور اس نے اس کیس میں گزشتہ دسمبر میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جسے آج سنایا گیا۔


کیا تھا گلبرگ سوسائٹی کیس؟

گلبرگ سوسائٹی کیس کو گجرات فسادات کے دوران بدترین ہلاکتوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگنے، جس میں 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے، کے واقعے کے ایک روز بعد 28 فروری کو شرپسندوں نے احمد آباد کی پوش کالونی گلبرگ سوسائٹی پر حملہ کر دیا تھا۔ اس سوسائٹی میں رہنے والے بیشتر افراد مسلمان تھے۔

شرپسندوں نے گلبرگ سوسائٹی کو نذرآتش کر دیا تھا جس میں وہاں رہائش پذیر کانگریس کے رکن پارلیمان احسان جعفری سمیت 68 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کو "گلبرگ سوسائٹی قتل عام" کا نام دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے جن 10 اہم کیسز کی دوبارہ انکوائری کا حکم دیا تھا، گلبرگ سوسائٹی ان میں سے ایک تھا۔


خصوصی تفتیشی ٹیم نے فسادات کے تقریباً ایک دہائی بعد 8 فروری 2012 کو سپریم کورٹ میں اپنی کلوزر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی اور 63 دیگر سینیئر حکومتی اہلکاروں کے خلاف "مقدمات قائم کرنے کے لائق کوئی ثبوت نہیں ہے۔" ذکیہ جعفری نے فرقہ وارانہ فسادات میں سیاسی رہنماؤں اور پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے گجرات فسادات کی ازسرنو انکوائری کی درخواست کی تھی۔

بی جے پی خوش

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گجرات فسادات میں 1044 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں 790 مسلمان اور 254 ہندو تھے۔ تاہم غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس کے دوگنا سے زیادہ تھی۔


سپریم کورٹ کے وکیل کپل مدان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اب تقریباً ختم ہی سمجھنا چاہیے۔ ذکیہ جعفری کے پاس اب صرف ریویو پٹیشن داخل کرنے کا ہی متبادل باقی رہ گیا ہے۔

حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے مخالفین کو انہیں چیلنج کرنے کے لیے زیادہ موثر طریقے تلاش کرنے چاہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔