ہسپانوی حکومت کی جسموں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کی مہم تنقید کی زد میں

ہسپانوی حکومت نے اس سال موسم گرما میں ساحل سمندر پر سیر و تفریح کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے ’جسموں کے تنوع‘‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا اور بغیر اجازت خواتین کی تصاوی استعمال کیں۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

جنوب مغربی یورپی ملک اسپین میں اس سال موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے ہی میڈرڈ حکومت نے ایک انوکھی مہم کا آغاز کیا جس کا تعلق ایسے افراد، خاص طور سے خواتین سے ہے، جو ساحل سمندر پر تعطیلات منانے میں جھجھک محسوس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کو دکھانے سے گریز کرنا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے جسموں کی ساخت کو وہ پُر کشش اور خوبصورتی کے عام معیار کے مطابق نہیں سمجھتیں۔ اپنے جسموں کی طرف اس رویے اور سوچ کے حامل افراد خاص طور سے خواتین میں ' مثبت رویے کے فروغ‘ کے لیے میڈرڈ حکومت نے جو ''موسم گرما ہمارا بھی ہے‘‘ مہم شروع کی اُس میں اُس نے متعدد خواتین کی تصاویر کا استعمال کیا، وہ بھی بغیر ان کی اجازت لیے۔ اس پر مختلف طبقات نے سخت غم و غُصے کا اظہار کیا۔

اسپین کی صنفی مساوات کی وزارت کی طرف سے پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں تین بہت وزنی خواتین کو دکھایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک معمر خاتون جو دونوں پستانوں سے محروم ہو چُکی ہیں، ان کی ٹاپ لس یا برہنہ سینے کے ساتھ تصویر بھی پوسٹ کی گئی اور اسی طرح ساحل سمندر پر لیٹی ایک اور خاتون کی تصویر کو بھی اس مہم کے لیے استعمال کیا گیا اور ان تمام تصاویر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ تمام خواتین بہت خوشی سے ساحل سمندر پر موسم گرما سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔


''یہ مہم بہت ضروری ہے‘‘

صنفی مساوات کی ہسپانوی وزارت کی طرف سے مذکورہ مہم ''ایک دکھتی رگ کو چھیڑنے‘‘ کے مترادف محسوس ہوتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے ریاستی ادارے کی طرف سے تیار کردہ اس مہم کو وزارت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ہزاروں بار شیئر کیا جا چکا ہے۔ بہت سے غیر ملکی میڈیا نے اس ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سے یہ تصاویر حاصل کر لیں۔ خاص طور پر ہسپانوی خواتین ، جوان اور بوڑھی ہر عمر سے تعلق رکھنے والی عورتوں میں اس مہم کے بارے میں بڑا جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔'' یہ مہم انتہائی اہم ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے ایک 18 سالہ نوجوان خاتوں لوسیا کا۔ لوسیا کے بقول،''خاص طور پر نوعمرخواتین میں اکثر کمپلیکس پایا جاتا ہے، کیونکہ وہ سوچتی ہیں کہ ان کے جسم کچھ میگزینوں میں چھپنے والی خواتین کے جسموں کی طرح پرُ کشش نہیں لگتے ہیں۔‘‘

کیا موٹی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں؟

اس کے علاوہ، اسپین میں اب بھی ''Macismo یعنی مردانہ تسلط یا غلبے کی ایک شکل موجود ہے جس کے لیے خواتین سمجھتی ہیں کہ کسی مرد کی توجہ پانے کے لیے خواتین کا خود کو ہر لحاظ سے بہترین ثابت کرنا سماجی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ 63 سالہ ماریہ کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ ''اکیسویں صدی میں بھی، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ موٹا جسم ایک بھدا جسم ہے۔‘‘


اگر کسی کا جسم اُس عام معیار یا تصور کے مطابق نہ ہوجو معاشرے میں پایا جاتا ہے تو، اب بھی کئی جگہوں پر ایسی جسامت کی حامل خواتین پر، یا تو تبصرے کیے جاتے ہیں، یا جملے کسے جاتے ہیں، وہ ساحل سمندر ہو، بار یا پول ہو۔

'' کچھ بھی ہو یہ میرا جسم ہے‘‘ مہم

مندرجہ بالا عنوان سے اسپین میں شروع ہونے والی سرکاری مہم میں استعمال کی جانے والی تصاویر کے شائع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اس اقدام کے ذمہ داروں کے خلاف الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیوم نیکولاس ولیمز نامی ایک برطانوی ماڈل نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی تصویر اس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے بغیر اجازت حاصل کر کے مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس ماڈل کا کہنا تھا کہ جب یہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی تب ان کے ایک پیروکار نے اس کی توجہ اس طرف مبذول کروائی۔ نیوم نیکولاس ولیمز نے جب اس کارروائی میں ملوث افراد پر اپنے غصے اور احتجاج کو ظاہر کیا اور ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا کہ بدقسمتی سے اس پوسٹ کا وقت اب ختم ہو چُکا ہے۔‘‘


یہ جواز یا دلیل ناقابل فہم ہے، خاص طور پر ایسے افراد کی طرف سے جو'' خواتین کے حقوق‘‘ کے لیے لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ برطانوی ماڈل کے بقول،''یقینا، میں ایک ماڈل ہوں اور انڈرویئر یا زیر جامہ میں میری تصاویر موجود ہے لیکن یہ بہرحال میرا جسم ہے۔‘‘

متاثرہ خواتین سے معذرت کا معاملہ

اسپین میں اس ''باڈی پوزیٹیویٹی‘‘ مہم کے ذمہ دار ادارے نے خواتین کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں ڈی ڈبلیو کی طرف سے کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس انسٹیٹیوٹ کی سربراہ انٹونیا موریلاس نے تاہم اس مہم کے آغاز کے فوراً بعد ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ مہم بنیادی طور پر '' جسم کا تنوع ‘‘ منانے، اس پر فخر کرنے اور خود کو پبلک میں اُپنے اصلی جسم کے ساتھ پیش کرنے کا حق دلانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔


موریلاس کا کہنا تھا،''ہم اس طرف توجہ دلانا چاہتے تھے کہ کس طرح جمالیاتی تشدد خواتین کے معیار زندگی کو بڑے پیمانے پر منفی طریقے سے متاثر کر سکتا ہے۔‘‘

ایک پبلک بیان میں، انسٹی ٹیوٹ نے تحریر کیا کہ وہ ماڈلز اور مصور کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہونے والے نقصان کے لیے معذرت خواہ ہے۔ ذمہ دار گرافک ڈیزائنر نے اب رضاکارانہ طور پر متاثرہ افراد کے ساتھ اپنی فیس بانٹنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس ناخوشگوار مہم کے ذمہ داروں کو یہ الزام برداشت کرنا ہوں گے کہ انہوں نے بالکل اسی طرز عمل کو فروغ دیا ہے جس پر ان کی مہم دراصل تنقید کرنا چاہتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔