نئی دہلی کے انتخابات میں شاہین باغ بحث کا موضوع کیوں ہے؟

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اب ترقیاتی موضوعات پر بحث کے بجائے شاہین باغ توجہ کا مرکز ہے، جہاں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دھرنا جاری ہے۔

نئی دہلی کے انتخابات میں شاہین باغ بحث کا موضوع کیوں ہے؟
نئی دہلی کے انتخابات میں شاہین باغ بحث کا موضوع کیوں ہے؟
user

ڈی. ڈبلیو

آٹھ فروری کو ہونے والے نئی دہلی کی ریاستی اسبملی کے انتخابات کے لیے آج کل مہم زوروں پر ہے اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا اہم موضوع شاہین باغ ہے، جہاں گزشتہ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کی اکثریت خواتین کی ہے اور اب اسی طرز پر نئی دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بھی دھرنے شروع ہو گئے ہیں۔ کئی سرکردہ رہنما، دانشور اور کارکنان شاہین باغ آ کر خطاب کر چکے ہیں۔

لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کو شاہین باغ سے شدید ناراضگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کی ریلیوں میں وہ اس مسئلے کو زور شور سے اٹھا رہی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک عوامی ریلی سے خطاب میں کہا، "ووٹ دیتے وقت بٹن کو اتنی زور سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ تک جائے اور وہ سب اٹھ کر اپنےگھر چلے جائیں۔" وزیر قانون روی شنکر پرساد نے شاہین باغ پر نکتہ چینی کے لیے باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور کہا، "شاہین باغ ایک نظریہ ہے جہاں بھارتیہ پرچم اور آئین کی آڑ میں ملک کو توڑنے والی طاقتوں کو اسٹیج پر دعوت دی جاتی ہے۔"


دلی کے ایک سینیئر بی جے پی رہنما اور رکن پارلیمان پرویش ورما نے تو شاہین باغ کو نشانہ بناتے وقت مظاہرین کو ملک مخالف عناصر بتایا۔ انہوں نے کہا، "وہاں لاکھوں افراد جمع ہو جاتے ہیں، دہلی کے لوگوں کو سوچنا چاہیے۔ وہ آپ کے گھروں میں داخل ہوکر آپ کی بہن بیٹیوں کا ریپ کر سکتے ہیں، ان کا قتل کریں گے۔ پھر کل مودی جی اور امت شاہ آپ کو بچانے نہیں آئیں گے۔ ‘‘ پرویش ورما کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو حکومت سازی کے ایک ماہ بعد ہی وہ اپنے حلقے کی ان تمام مساجد کو ختم کر دیں گے جو حکومت کی اراضی میں تعمیر کی گئی ہیں۔

ایک اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے عوام سے خطاب کے دوران نعرہ بلند کیا، "دیش کے غداروں کو۔۔۔۔۔ جواب میں بی جے پی کے حامیوں نے کہا، "گولی مارو سالوں کو"۔ اس پر انہوں نے پوچھا کہ غدار کون ہے تو بھیڑ سے جواب آيا، "کیجری وال۔ مسٹر ٹھاکر نے کہا، "پّپو کا نام (راہول گاندھی) بھول گئے، دونوں ایسے ہیں، جن کی کڑی عمران خان سے ملتی ہے۔" چند روز قبل بھی ایک رہنما نے دلی کے انتخابات کو "بھارت مقابلہ پاکستان" قرار دیا تھا۔


ترنمول گانکریس سے رکن پارلیمان کاکولی گھوش دستیدار کہتی ہیں کہ دائیں بازو کی قوم پرست جماعت بی جی پی کا یہی اہم ایجنڈہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت ميں انہوں نے کہا، "وہ انتخابات کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ملک اور آئین کو تقسیم کرنے کی سیاست ہے جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔"

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے سربراہ قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ شاہین باغ کو ہدف بنانے کے دو اہم مقاصد ہیں، "شاہین باغ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک علامت بن چکی ہے، یورپی یونین میں بھی اب ایک قرارداد پیش ہونے والی ہے تو وہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بی جے پی نے کوئی ترقیاتی کام تو کیا نہیں، تو اب وہ بوکھلاہٹ میں شاہین باغ کو نشانہ بنا رہی ہے تاکہ انتخابات کو ہندو مسلم کا رنگ دیا جا سکے۔"


ادھر کانگریس پارٹی نے بی جے پی رہنماؤں کے ان متنازعہ بیانات کے سلسلے میں انتخابی کمیشن سے شکایت کی ہے۔ پارٹی کے کئی رہنماؤں نے اس بارے میں قومی انتخابی کمیشن سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن بی جے پی نے اپنے رہنماؤں کے تمام بیانات کا دفاع کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان سدیش برما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ شاہین باغ کو ملک کبھی برادشت نہیں کرے گا، "شہریت ترمیمی قانون کو پارلیمان نے منظور کیا ہے۔ یہاں ڈیموکریسی ہے جبکہ شاہین باغ موبوکریسی ہے۔‘‘

نئی دہلی میں ریاستی اسمبلی کی کل ستّر سیٹیں ہیں۔گزشتہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور اسے 67 سیٹیں ملی تھیں۔ اس بار آٹھ فروری کو پولنگ ہو گی جبکہ ووٹوں کی گنتی گیارہ فروری کو کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔