عراق، استعمال شدہ گاڑیوں کے پرزہ جات کا اربوں ڈالر کا کاروبار

عراقی شہر اربیل مغربی ممالک میں استعمال کی گئی گاڑیوں کے پرزہ جات کی خرید و فروخت کا مرکز ہے۔ حادثات میں تباہ ہونے والی گاڑیوں کو یہاں دوسری زندگی ملتی ہے۔

عراق، استعمال شدہ گاڑیوں کے پرزہ جات کا اربوں ڈالر کا کاروبار
عراق، استعمال شدہ گاڑیوں کے پرزہ جات کا اربوں ڈالر کا کاروبار
user

ڈی. ڈبلیو

عراق کا شمالی شہر اِربیل گاڑیوں کے استعمال شدہ پرزہ جات کی خرید و فروخت کے لیے مشہور ہے۔ اِربیل کے ایک گیراج کے مالک کاری بکر کے مطابق گاڑیوں کے استعمال شدہ پرزوں کو درآمد کرنے کا کاروبار گویا ’پیسے بنانے کی مشین‘ کی مانند ہے۔ مقامی تاجر بکر نے بتایا کہ اس کاروبار سے تقریباﹰ دو سو کُرد تاجروں نے خوب پیسہ کمایا۔ ان کے بقول، منافع بہت زیادہ ہے اور اگر ان کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کے لیے کوئی پارٹنر تیار ہو جائے تو وہ استعمال شدہ پرزہ جات جمع کرنے کے لیے یورپ جانے کو تیار ہیں۔

عراقی شہری گاڑیوں کے شوقین سمجھے جاتے ہیں۔ مالی استطاعت رکھنے والے گھرانوں میں کم از کم ایک یا دو گاڑیاں رکھنا عام سی بات ہے۔ کاری بکر نے بتایا کہ مقامی لوگوں میں گاڑیوں کی دیکھ بھال کرنے کا رجحان کم ہی نظر آتا ہے اور مالکان گاڑیوں کی مرمت پر زیادہ خرچہ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اسی وجہ سے سستے اور معیاری استعمال شدہ پرزہ جات کی مانگ زیادہ ہے۔ لہٰذا بکر کوارٹر نامی اپنے گیراج میں ہرقسم کی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے پرانے پرزے رکھتے ہیں۔

’استعمال شدہ پرزے چین میں تیار کیے گئے نئے پرزوں سے بہتر‘

اربیل میں عمید عبدالعزیز کی چھوٹی سی دکان میں زیادہ تر جاپانی کمپنی ’ٹویوٹا‘ کی گاڑیوں کے استعمال شدہ پرزے دستیاب ہیں۔ عراق میں اس جاپانی کمپنی کی گاڑیاں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ عبدالعزیز استعمال شدہ پرزے خریدنے کے سلسلے میں ایک سال میں دو مرتبہ دبئی جاتے ہیں کیونکہ وہاں امریکا اور کینیڈا میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی جاتے ہیں۔

عبدالعزیز کے بقول، دبئی میں وہ گاڑیوں میں لگے پرزوں کا انتخاب کرتے ہیں جو کہ بعد میں الگ کیے جاتے ہیں۔ عبدالعزیز چینی کمپنیوں کے تیار کردہ ’نقلی اور غیر پائیدار‘ پرزے بھی فروخت کرتے ہیں لیکن ان کے گاہک زیادہ تر اصلی، پائیدار اور معیاری استعمال شدہ پرزہ جات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

عراق میں گاڑیوں کے پرزے دو راستوں سے درآمد کیے جاتے ہیں: امریکا اور کینیڈا کی گاڑیاں دبئی سے ایرانی بندرگاہ بندر عباس کے راستے جبکہ یورپی گاڑیاں ترکی کے راستے عراقی کردستان پہنچتی ہیں۔ ترکی میں کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے یورپی گاڑیاں عراقی تاجروں کو اکثر مہنگی بھی پڑتی ہیں۔

اربوں ڈالر کا کاروبار

عراق میں گاڑیوں کے استعمال شدہ پرزہ جات کی تجارت کا سالانہ حجم تقریباﹰ تین اعشاریہ پانچ ارب ڈالر بنتا ہے۔ گاڑیوں کے اضافی پرزہ جات کے طلبگار بغداد، موصل اور بصرہ سے بھی اسی شہر کا رخ کرتے ہیں۔ عمر سعید احمد اس کاروبار کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ ان کے بقول، وہ ماہانہ اوسطاﹰ دو کنٹینر درآمد کرتے ہیں جس کی لاگت قریب ایک ملین ڈالر بنتی ہے۔ احمد کے مطابق ان دو کنٹینرز پر ان کو تقریباﹰ تیس ہزار ڈالر تک کا منافع ہوجاتا ہے۔

گاڑیوں کے استعمال شدہ کاروبار کے مرکز اِربیل میں آج بھی زیادہ تر خرید و فروخت نقد رقم کے ذریعے ہی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کاروبار کی صحیح مالیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */