جرمنی کی جیلوں میں غربت، مقروض قیدی رہائی کے بعد مقروض تر

کہتے ہیں کہ قرض کے بوجھ کے ساتھ جیل جانے والا وہاں سے مزید مقروض ہو کر ہی باہر نکلتا ہے۔ موجودہ مہنگائی کی وجہ سے پیدا شدہ بحران اس صورت حال کو ابتر بنانے کا باعث بن رہا ہے۔

جرمنی کی جیلوں میں غربت، مقروض قیدی رہائی کے بعد مقروض تر
جرمنی کی جیلوں میں غربت، مقروض قیدی رہائی کے بعد مقروض تر
user

Dw

حالیہ دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بحران اس کہاوت کو سچ ثابت کرتا دکھائی دے رہا ہے جس کے مطابق جیل جانے والا کوئی بھی مقروض شہری وہاں سے مزید مقروض ہو کر ہی نکلتا ہے۔ چونکہ کھانے ہینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اس لیے جرمنی میں جیلوں کے قیدیوں کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

جرمنی میں لگ بھگ 45 ہزار افراد جیلوں میں قید ہیں۔ دیگر جرمن باشندوں کے مقابلے میں وہ مہنگائی سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی کوئی لابی بھی نہیں ہے۔ یہ قیدی روزمرہ کی ضروری اشیاء، خاص طور سے اشیائے خوراک جیسے کہ روٹی، مکھن، سورج مکھی کے تیل اور دیگر مصنوعات کے لیے کسی سپر مارکیٹ کی خصوصی پیشکش سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ان قیدیوں کی جرمنی بھر میں پائے جانے والے ایک ہزار کے قریب فوڈ بینکوں تک رسائی بھی نہیں ہوتی جو غربت کے شکار اور بے سہارا انسانوں کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ انہیں ہر ہفتے صرف ایک بار اپنے استعمال کے لیے ضروری ان اشیاء کی فہرست پر نشان لگانے کا موقع ملتا ہے، جو مفت فراہم کی جانے والی بنیادی اشیاء کے علاوہ وہ اضافی طور پر خریدنا چاہتے ہوں۔ ایسی اشیاء کی قیمتیں بعض اوقات باہر کی دکانوں کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی 160 جیلوں کو یہ تمام اشیاء صرف ایک ہی کمپنی فراہم کرتی ہے۔ اس طرح اس ایک کمپنی کی اس کاروبار پر اجارہ داری ہے۔ مثلاً کسی بھی سستے سٹور سے 19 سینٹ کی قیمت پر ملنے والی منرل واٹر کی ایک بوتل کی قیمت جیل کے اندر 34 سینٹ تک ہو سکتی ہے، یعنی تقریباﹰ 80 فیصد زیادہ۔


سیاست میں قیدیوں کا موضوع غیر اہم

جرمنی جیسے ملک میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے، جو قیدیوں کے حقوق اور مفادات کے لیے سرگرم ہوں۔ وفاقی صوبے سیکسنی کی پارلیمان میں بائیں بازو کی ایک رکن ژولیانے ناگل تاہم قیدیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ ژولیانے کہتی ہیں، ''کام یا مشقت کرنے والے قیدیوں کو جو بہت کم معاوضے دیے جاتے ہیں، ان میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ سیکسنی کی جیلوں میں ساڑھے تین ہزار قیدیوں میں سے دو ہزار ملازم ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ دو یورو پندرہ سینٹ فی گھنٹہ اجرت ملتی ہیں اور اس اجرت کو قانونی پینشن کے لیے شمار بھی نہیں کیا جاتا۔‘‘

بائیں بازو کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرمن سیاست دان جرمنی کی جیلوں میں اصل صورت حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زیادہ تر قیدی کام کرتے ہیں۔ 16 جرمن ریاستوں میں سے 12 ریاستوں کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ کام کریں۔ قیدی کچن میں کرتے ہیں، کسی بڑھئی کا کام یا پھر لوہار کا کام۔ انہیں ایسے کاموں کی اجرت دو تا تین یورو فی گھنٹہ ملتی ہے۔


مہنگائی کے دور میں آمدنی کم

قیدیوں سے بہت کم اجرت پر کام لینے کا مقصد دراصل ان کی تربیت کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ مسلسل کام کرنے کے عادی بن جائیں اور انہیں باقاعدہ کام کرنے کی قدر و اہمیت کا علم بھی ہو۔ انہیں آزادی کی زندگی گزارنے کی تیاری کے لیے دوبارہ سماجی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ آزاد معاشرے میں زندگی گزارنے کے قابل بن سکیں۔ جرمنی میں جیلوں میں کام کرنے والے قیدیوں کو قانونی طور پر ملازم نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری طرف قیدی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ان کے لیے ایمان داری سے کام کرنا اس وجہ سے بیکار ہو سکتا ہے کہ انہیں اس سے کوئی زیادہ مالی فائدہ تو نہیں پہنچے گا۔

یہ قیدی کچھ رقم سے اپنے لیے حفظان صحت کا ضروری سامان خریدوا لیتے ہیں، مثلاﹰ شیمپو، باڈی سپرے یا شیو کے لیے ریزر وغیرہ۔ اس کے علاوہ وہ کچھ رقم باہر کی دنیا سے رابطے کے لیے ٹیلی فون کالوں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ کچھ قیدی اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ شاپنگ کے دوران اپنے لیے خود پیسے دے کر پھل، مٹھائیاں یا منرل واٹر وغیرہ منگوا لیں۔


پینشن کے استحقاق میں اضافہ

جرمنی کی موجودہ وفاقی حکومت پینشن کے استحقاق کو بڑھا دینا چاہتی ہے۔ آج کے دور میں قیدیوں پر یہ مقولہ صادق آنے لگا ہے: ''قیدی قرضوں کے ساتھ جیل جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ مقروض ہو کر باہر نکلتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ جیل میں محنت سے ہونے والی آمدنی کو بڑھاپے میں پینشن کے استحقاق کے لیے بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ بڑھاپے میں رہائی پانے والے قیدیوں کے لیے باہر کی دنیا میں غربت بھی ایک بڑا چینیلج ہوتی ہے۔ جیل سے رہائی کے ابتدائی تین برسوں کے دوران تقریباً ہر دوسرا قیدی دوبارہ کسی نہ کسی جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔