’جسم کے نہاں خانے دکھانے پر چھ ماہ کی جیل‘

فن لنیڈ میں بنا رضامندی جنسی نوعیت کی تصاویر بھیجنا جرم قرار دیتے ہوئے اسے بھیجنے والے کو چھ ماہ قید کی سزا سے متعلق بحث پارلیمان میں جاری ہے۔

’جسم کے نہاں خانے دکھانے پر چھ ماہ کی جیل‘
’جسم کے نہاں خانے دکھانے پر چھ ماہ کی جیل‘
user

ڈی. ڈبلیو

کسی غیر فرد کو اس کی رضامندی کے بغیراپنے جسم کے نہاں خانے دکھانے پر چھ ماہ کی جیل کی سزا یقینی طور پر اس سارے عمل میں سے 'سیکسینس‘ نکالنے کے لیے کافی ہے۔ فن لینڈ کے قانون ساز اس وقت ملک میں جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین میں نئی اصلاحات پر بحث کر رہے ہیں۔

اس نئے قانون کے تحت کسی شخص کی مرضی کے بغیر کسی بھی طرح کی جنسی تصویر بھیجنے کے عمل کو بغیر رضامندی جسمانی تعلق کے برابر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت فن لینڈ میں موجود قانون کے مطابق اگر کسی شخص کی مرضی کے خلاف اسے چھوا جائے، تو اس پر جرمانے اور قید کی سزا موجود ہے۔


اس نئے مسودہ قانون کا مقصد آن لائن 'ڈک پکس‘ کے نام سے مشہور یعنی بغیر دعوت جنسی اعضاء کی تصاویر بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہے۔

سوشل ڈیموکریٹ قانون ساز ماتیاس میکینن کے مطابق قانون میں تبدیلی ضروری ہے۔ ''جنسی ہراسانی جنسی ہراسانی ہے، چاہے آپ کسی کو غلط انداز سے چھوئیں، کسی سے نازیبا بات کریں یا کسی کو اپنی نازیبا تصویر بھیجیں۔ یہ اہم نہیں ہے کہ آپ کس طرح کسی کو ہراساں کر رہے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ اپنے کسی بھی عمل سے دوسرے کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘


میکینن فن لینڈ کی قانونی امور کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کے بقول ملکی قانون کو ٹیکنالوجی میں ارتقا سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ''انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہراسانی کے طریقے بدل دیے ہیں۔ اب ایسے جرائم مختلف انداز سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جنسی ہراسانی سے متعلق MeToo کی آن لائن مہم بھی جزوی طور پر اس نئی قانون سازی کا باعث بنی ہے تاہم بین الاقوامی سطح پر جنسی ہراسانی سے متعلق تمام بحث کو بھی اس قانون سازی میں مدنظر رکھا جا رہا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں اگلے چند ماہ میں تجاویز حکومت کے سامنے پیش کی جائیں گی، جس کے بعد پارلیمانی منظوری دی جائے گی۔

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں بھی اسکرٹ پہننے والی خواتین کی بغیر مرضی اسکرٹ کے نیچے سے لی جانے والی تصاویر اور قمیض کے گلے سے اندر کو جھانکنے سے جڑی تصاویر یا ویڈیوز بنانے پر سخت قوانین منظور کیے ہیں۔ اس پر جرمانے یا دو برس قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔