’’عورت اور اس پر پاکستانی ‘‘، دہرا عذاب کیوں؟

ایک پاکستانی نژاد خاتون آج اپنی جرمن شہریت پر فخر کرتے ہوئے اسے اپنی بقا کی ضمانت کیوں سمجھنے لگی؟

’’عورت اور اس پر پاکستانی ‘‘، دہرا عذاب کیوں؟
’’عورت اور اس پر پاکستانی ‘‘، دہرا عذاب کیوں؟
user

Dw

پاکستان کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ، جس نے ہمیشہ والدین سے یہی سنا ہو کہ ملک و قوم کے محافظ چادر اور چار دیواری کے تقدس پر آنچ نہیں آنے دیتے، آج خدا کا شکر بجا لا رہی ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ہے اور اب پاکستانی نہیں بلکہ جرمن شہریت کی حامل ہے۔ ایسا کیونکر ہوا؟

پاکستان کی وادی مہران میں آنکھ کھولنے، لال شہباز قلندر اور عبداللہ شاہ غازی جیسے صوفیا کی تعلیمات اور کلام سے خاص نسبت محسوس کرنے والی، پاکستان کی سر زمین کے لیے قربانیاں دینے والے آبا و اجداد کے قصے سن کر اپنی شناخت اور پاکستانی قومیت پر فخر کرنے والی ایک خاتون آج اپنی جرمن شہریت کے حصول کو بہت بڑی نعمت سمجھ رہی ہے۔


جب تک یہ خاتون پاکستان میں رہی، اس نے بانی پاکستان محمد علی جناح، کی شخصیت کو صرف اپنا نہیں بلکہ قوم کی تمام لڑکیوں اور عورتوں کا 'رول ماڈل‘ سمجھا جو اپنی ہمشیرہ کو اپنے شانہ بشانہ لے کر چلتے تھے۔ وقار ، ہمت اور خود اعتمادی سے بھرپور محترمہ فاطمہ جناح جس عمدگی اور شائستگی کے ساتھ اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی قوم کی رہبری کے لیے سرگرم تھیں، وہ انداز ہر پاکستانی لڑکی اور عورت کے لیے مشعل راہ ہے۔

اس پاکستانی نژاد خاتون نے جیسے ہی بچین کے خوابوں خیالوں والی دنیا سے باہر قدم رکھا اور ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہونا شروع کیا، تب سے اسے ایک ذہنی الجھن کا سامنا تھا۔ گھر کے بڑے جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے تو وہ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ ایک ملک کے اندر رہنے والے باشندوں کی شناخت الگ الگ کیوں ہوتی ہے۔ کبھی کسی کو سندھی کہہ کر پکارا جاتا تو کوئی اپنے پنجابی ہونے پر فخر کرتا دکھائی دیتا، کسی کے لیے پٹھان ہونا باعث افتخار ہے تو کوئی خود کو بلوچ قوم کا سپوت سمجھتا ہے۔ ان سب کے بیچ ایک لفظ ایسا تھا جو کسی نا کسی ضمن میں بالکل الگ تھلگ اور بیگانگی کے زمرے میں استعمال ہوتا لیکن اس لفظ کے استعمال میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ لفظ تھا،''مہاجر‘‘۔ اس خاتون کو اپنے والدین اور خاندان کے دیگر بزرگوں سے سننے کو ملتا کہ وہ مہاجر ہیں۔ ان کی مادری زبان اُردو ہے اور وہ اپنا سب کچھ لٹا بٹا کر پاک سرزمین پر آ بسے ہیں۔ انہیں مقامی لوگوں نے ہمیشہ غیر مقامی ہونے کا احساس دلایا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ ڈومیسائل پر ''سن آف دا سوئل‘‘ کا خانہ نہایت اہم ہوتا تھا۔


اس خاتون نے جب نوجوانی میں قدم رکھا تو تعلیمی مدارج کے سرکاری تقاضوں کو پورا کرنے کا مرحلہ سامنے آیا۔ وہاں پر بھی میرٹ سے زیادہ اہمیت اس بات کی دیکھی کہ کون سا طالبعلم کس صوبے سے ہے، کس کا تعلق کسی وڈیرے اور جاگیر دار خاندان سے ہے۔ یا کون کس بریگیڈئر یا جرنیل کی سفارش لایا ہے۔ جوانی کا دور آیا تو روزگار کی منڈی میں پائی جانے والی غیر منصفانہ اور قومیت اور فرقہ بندی سے آلودہ فضا نے سخت گھٹن کا احساس دلایا۔ سیاسیات کے طالبعلم کی حیثیت سے جب ملکی سیاست کے مضمرات کا شعور آیا تو مایوسی در مایوسی کے سوا کچھ نہ پایا۔ نصابی کتابوں میں عالمی، علاقائی اور ملکی سیاست کے بارے میں جو کچھ پڑھا، اپنے ملک میں اس کی انتہائی بگڑی ہوئی شکل پائی۔ کرہ ارض پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کی تاریخ میں ایسے ابواب ڈھونڈتی رہی، جنہیں کوئی سنہری دور کہہ سکے، جن پر کوئی فخر کر سکے، جنہیں کوئی مثالی کہہ سکے۔ اس خاتون کے ذہن پر سب سے پہلے گہرے اثرات جس واقعے نے چھوڑے وہ ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا۔ جس میں آمریت کے دھاگوں سے مذہب کا لبادہ بنا گیا۔ ان دونوں عناصر کا گڈمڈ کر کے ایک ایسا شربت تیار کیا گیا جس کو پوری قوم نے پیا اور اُس پر ایک نشہ طاری ہو گیا۔ کبھی نہ ٹوٹنے والا۔

اس نے والدین سے سن رکھا تھا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح اور اُن کی بہن فاطمہ جناح اس ملک کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ قائد کے دنیا سے جانے کے واقعات سے لے کر ان کی بہن فاطمہ جناح کی پاکستان کے لیے خدمات کا ذکر آتا تو بزرگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اُن کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں تاہم قارئین میں بیشتر ایسے افراد ہوں گے جنہیں پاکستان کی تاریخ کے اُس دور کی تمام تفصیلات کا ادراک ہوگا۔


اس خاتون کے لیے انتہائی ذہنی الجھن کا سبب یہ بات ہوتی کہ پاکستانی سیاست میں دین یعنی اسلام کو ارباب اختیار نے ہر دور میں یرغمال بنا کر اپنے حق اور اپنے مخالف کے خلاف کس طرح استعمال کیا۔ ایک نوجوان کی حیثیت سے اس پاکستانی خاتون نے بینظیر بھٹو کو اپنا 'رول ماڈل‘ سمجھا اور ان کے دور اور اُس کے بعد کے کچھ سالوں میں پاکستان میں جن خواتین نے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا اور اس کی حصول کے بعد معاشرے میں انصاف، رواداری، مساوات اور خوشحالی لانے کی کوشش کی انہیں ایک ایک کر کے اقتدار کے بھوکے اور ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والے حلقوں کی طرف سے کیسے زیر کیا گیا، یہاں تک کہ ان کی جانوں کی بازی لگی۔ یہ تمام واقعات اس کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑتے گئے۔

ان حالات میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ملک کے اندر رہ کر مشکل بھی تھا اور بے فائدہ بھی اس وجہ سے اس خاتون نے جرمنی آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس ہدف کو کامیابی سے حاصل بھی کر لیا۔ مگر کیا کریں کہ جہاں کی مٹی ہو، وہ سرزمین بار بار اپنی طرف بلاتی ہے۔ یہ خاتون پابندی سے اپنے ملک پاکستان جاتی رہتی تھی، اُس وقت تک جب تک اُس کے والدین اُس کی راہ تکتے رہے۔ وہ اپنے والد کے اس قول کو ،'' اس سرزمین کے لیے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں، اس سے کبھی ناتا نہ توڑنا۔ دھرتی تو ماں ہوتی ہے۔ ماں کی گود کو سونا نہ کرنا،‘‘ اپنے ذہن و ادراک کے پردے پر محفوظ رکھے رہی۔


گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان جس طرح تنزلی کی طرف گامزن رہا اُس کی مثال شاید عالمی تاریخ میں بھی نہ ملے لیکن اس تنزلی کا شکار صرف نہتے عوام، کمزور طبقہ اور ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد یعنی ''نوجوان‘‘ ہوئے جنہیں اس وقت سیاہ بادلوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کا مستقبل اُس کے حال اور ماضی سے بھی زیادہ بھیانک لگ رہا ہے۔

معاشرتی بدحالی کے اس دور میں ایک ایسی چیز سامنے آئی ہے جس کو شاید بہت سے پاکستانی بھیانک خواب سمجھ رہے ہوں لیکن یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جسے اس وقت کوئی تسلیم نہیں کرنا چاہتا مگر پاکستانیوں کے حق میں یہ امر نہایت اہم ہے کہ وہ حقیقت سے چشم پوشی نہ کریں۔ اپنے پیاروں کے لہو کو بے ضمیر، بے ایمان، مفاد پرست، اقتدار کے بھوکوں اور غیرت اور انسانیت کی تمام حدود پار کر کے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو بلیک میل کرنے والوں کے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال نہ ہوں۔


گزشتہ چند روز کے دوران پاکستانی خواتین کی عصمت، ان کے وقار ان کے رتبے کو گندی سیاست اور اندھے انتقام کی بھٹی میں جس طرح جلایا گیا ہے اُس کے بعد نہ تو اس سرزمین کو پاک کہا جا سکتا ہے نہ ہی اس دھرتی ماں کے اندر بسنے والی عورت کا کوئی مقام باقی رہا ہے۔ نام نہاد مذہبی رہنما ہوں یا عوام کے نوالے چھیننے والے سیاستدان، ملک و قوم کے محافظ ہوں یا نہتے عوام کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک بیوقوف بنانے والا کوئی گروہ، ہر کوئی اقتدار کی ہوس کا شکار ہے۔ اس ہوس میں ''ہوا کی بیٹی‘‘ ہر سطح پر ظلم سہ رہی اور پامال ہو رہی ہے۔

ایسے میں ایک پاکستانی نژاد خاتون یہ کہنے پر مجبور ہے کہ 'میں پاکستانی نہیں جرمن شہریت کی حامل ہوں اور اس پر مجھے مسرت ہے۔ میرے خون میں سے میری پاکستانیت کو نکالنے کا کوئی مجاز نہیں ہو سکتا مگر میں تمام پاکستانی خواتین، جنہیں انسانیت سوز، ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خود کو جھوٹے خداؤں کے سحر سے باہر نکالیں۔ ان بتوں کو توڑ دیں۔ صرف پیدا کرنے والی ذات کا سہارا لیں اور مضبوطی سے اپنے آپ کو خود مختار اور با شعور بنائیں‘۔

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔