لکھ پتیوں کی تعداد میں لاکھ کا اضافہ

گزشتہ برس دس لاکھ ڈالر سے زائد رقم رکھنے والے جرمن شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا انکشاف عالمی دولت انڈیکس میں کیا گیا ہے۔

لکھ پتیوں کی تعداد میں لاکھ کا اضافہ
لکھ پتیوں کی تعداد میں لاکھ کا اضافہ
user

ڈی. ڈبلیو

سن 2019 میں ایسے جرمن شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جن کے پاس دس لاکھ ڈالر (تقریبا آٹھ لاکھ یورو) سے زائد کی رقم جمع ہے۔ یہ بات عالمی ویلتھ انڈیکس میں بتائی گئی ہے جو جمعرات نو جولائی کو جاری کی گئی۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2019 میں براعظم یورپ کی سب سے بڑی اقتصادیات کا حامل ملک جرمنی کساد بازاری کا شکار ہونے سے بال بال بچا تھا اور اس کی سالانہ اقتصادی ترقی کی شرح 0.6 فیصد رہی تھا۔

یہ رپورٹ کیپ جمینئی (Capgemini) نامی ادارے نے مرتب کی ہے۔ اس کی تفصیلات امریکی سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کے جریدے ایموشن (Emotion) میں شائع کی گئی ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو کوئی بھی زیادہ رقم کماتا ہے، اس کی مسرت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔


اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں لکھ پتیوں کی تعداد میں ایک لاکھ سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس طرح اب جرمنی میں دس لاکھ ڈالر سے زائد ڈالر کے حامل افراد کی مجموعی تعداد چودہ لاکھ ساٹھ ہزار ہو گئی ہے۔

تاہم ایسا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں برس کورونا وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے پھیلنے والی وبا نے جس طرح عالمی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس نے دنیا بھر کے متمول افراد کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے کاروبار رکھنے والوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ اس تناظر میں جرمن لکھ پتیوں کے مالی معاملات اور تجارتی حالات پر کووڈ انیس بیماری نے منفی اثرات کس حد تک مرتب کیے ہیں، فی الحال اس بابت کچھ کہنا مشکل ہے۔ وبا کی وجہ سے آیا جرمن لکھ پتیوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے یا نہیں۔


دنیا بھر میں لکھ پتیوں کی تعداد پر نگاہ رکھنے والے ادارے کیپ جیمنئی کا کہنا ہے کہ سن 2019 کے دوران دس لاکھ ڈالر رکھنے والے افراد کی تعداد میں اقوام عالم میں مجموعی طورپر نو فیصد کا اضافہ ہوا۔ دنیا بھر میں لکھ پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد امریکا میں بڑھی ہے۔ امریکی لکھ پتیوں کی تعداد میں اضافہ گیارہ فیصد یا ان کی تعداد چھ لاکھ بڑھی ہے۔ اس وقت امریکا میں دس لاکھ ڈالر یا اس سے زائد رکھنے والوں کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ ہو گئی ہے۔

دوسری جانب مسلح تنازعات اور جیو پولیٹیکل تناؤ بھی مسلسل بڑھتا رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری رہا تھا۔ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیکس اصلاحات کا فائدہ کئی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔