جاپانی نوجوان شادی سے انکار کیوں کر رہے ہیں؟

تیس اور چالیس برس کے درمیانی عمر کا ہر چوتھا جاپانی نوجوان شادی نہیں کرنا چاہتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتا ہوا معاشی دباؤ اور معاشرتی ذمہ داریوں سے مبرا زندگی کی خواہش اس رجحان کے اہم محرکات ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

شو کی عمر 37 برس ہے اور اس کے مطابق وہ مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے پاس روزگار ہے، جس سے اس کی آرام دہ زندگی کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ اس کے دوست ہیں اور وہ ان سے باقاعدگی کے ساتھ ملاقات بھی کر سکتا ہے۔ اس کے کئی دیگر مشاغل بھی ہیں اور شوق پورا کرنے کے لیے معقول وقت بھی دستیاب ہے۔ شو کی زندگی میں صرف ایک کمی ہے، بس ایک بیوی نہیں ہے، لیکن وہ اس کمی پر قطعی ناخوش نہیں۔

جاپانی حکومت کی جانب سے رواں ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شو کا شمار 30 اور 40 برس کی درمیانی عمر کے ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں ہوتا ہے، جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی اور نہ ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ اس رجحان نے جاپان میں اس لیے بھی شدید تشویش پیدا کر دی ہے کیوں کہ ان کی آبادی پہلے ہی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔


صنف کے بارے میں تازہ حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ عمر کی 25.4 فیصد عورتیں اور 26.5 فیصد مرد شادی کرنے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتے۔ بیس اور تیس برس کے مابین عمر کے جاپانی نوجوانوں میں بھی یہ شرح زیادہ مختلف نہیں۔ اس عمر کی 14 فیصد لڑکیاں اور 19 فیصد لڑکے بھی شادی نہیں کرنا چاہتے۔

شادیوں کی مسلسل کم ہوتی تعداد

سن 2021 ء کے دوران جاپان میں صرف 514,000 شادیاں رجسٹر کی گئیں۔ یہ سن 1945ء کے بعد سے اب تک کی سب سے کم سالانہ تعداد ہے۔ 1970ء میں اس سے دوگنا زیادہ شادیاں رجسٹر کی گئی تھیں۔


سروے میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ وہ شادی سے اس لیے گریز کرتی ہیں کیوں کہ وہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں۔ وہ اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں، اور گھریلو خاتون بن کر گھریلو کام کاج، بچوں کی پرورش اور والدین کی دیکھ بھال جیسے روایتی کام نہیں کرنا چاہتیں۔

نوجوان مرد بھی نجی آزادیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم بہت سے نوجوان یہ بھی کہتے ہیں کہ روزگار کی بے یقینی اور خاندان کی کفالت کے لیے ناکافی آمدن بھی شادی نہ کرنے کے اسباب ہیں۔


ٹوکیو کے شمال میں رہنے والے شو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میں خوش ہوں، جو چاہوں کر سکتا وں، مجھے کسی اور کے بارے میں نہیں سوچنا پڑتا۔ میں رات دیر تک جاگ کر کمپیوٹر گیمز کھیل سکتا ہوں، فلم دیکھ سکتا ہوں اور دوستوں سے بھی مل سکتا ہوں، مجھے یہی اچھا لگتا ہے۔‘‘

شو نے مزید بتایا، ''میرے کچھ دوستوں نے شادیاں کیں، لیکن وہ بدل گئے اور اب میں ان سے زیادہ نہیں ملتا۔ ان کے لیے شاید ٹھیک ہے لیکن مجھے گرل فرینڈ رکھنا یا شادی کرنا 'مینڈوکوسائی‘ لگتا ہے۔‘‘ جاپانی زبان میں مینڈوکوسائی کا مطلب 'پریشان کن‘ ہے۔


حکومتی رپورٹ کے اختتام میں لکھا گیا، ''جاپانی خاندان کی تشریح بدل چکی ہے اور اب شادی کو مستحکم زندگی کی ضمانت نہیں سمجھا جا رہا۔‘‘

کم ہوتی شرح پیدائش

جاپان کی صحت، محنت و بہبود سے متعلق وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 ء میں جاپان میں مجموعی طور پر 811,604 بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے سال کی نسبت 30 ہزار کم ہے۔


گزشتہ برس کورونا کی وبا کے دوران 14 لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں اور اس کے ساتھ مسلسل چھٹے برس شرح پیدائش کم رہی۔ یوں مجموعی آبادی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی۔

یوں تو جاپان میں شرح پیدائش 1970 ء سے کم ہو رہی ہے لیکن ماہر نفسیات آیا فیوجی کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران یہ مسئلہ سنگین ہو چکا ہے اور بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت بھی اس رجحان کو بدل نہیں پا رہی۔


ممکنہ وجوہات کے بارے میں فیوجی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک تو یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت جاپان میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس وجہ سے بھی اپنے خاندان کی خواہش رکھنے والے نوجوان اسے مالی بوجھ سمجھتے ہیں۔‘‘ اسی طرح عورتیں بھی شادی کرنے کی بجائے ملازمت کو ترجیح دے رہی ہیں۔

ان محرکات کے علاوہ فیوجی نے یہ بھی بتایا کہ نوجوان حقیقی زندگی میں لوگوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ یوں صنف مخالف سے روابط بھی کم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے فیوجی کو یہ امید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں کم ہوتی آبادی کا مسئلہ حل ہو پائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔