ٹک ٹاک بناتے ہوئے دس سالہ بچی کے ہلاکت کے بعد ٹک ٹاک کے خلاف کارروائی

اٹلی میں بظاہر ’بلیک آؤٹ چیلنج‘ کے لیے ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے دس سالہ بچی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں چینی سوشل میڈیا ایپ کے خلاف شدید غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

ڈی. ڈبلیو

اطالوی دفتر استغاثہ کے مطابق حکام نے دس سالہ بچی کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سسلی سے تعلق رکھنے والی یہ بچی بظاہر 'بلیک آؤٹ چیلنج‘ کے بارے میں ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے دم گھٹنے سے ہلاک ہوئی۔

اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ اطالوی ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی نے فوری طور پر چینی ویڈیو شیئرنگ ایپ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کمپنی پر کسی بھی ایسے صارف کے ڈیٹا تک رسائی پر پابندی لگا دی ہے، جس کی عمر کی درست شناخت نہیں ہو سکتی۔


ٹک ٹاک پر یہ پابندی کم از کم 15 فروری تک لاگو رہے گی جب کہ اس دوران سسلی کا دفتر اسغاثہ بچی کی ہلاکت کی تحقیقات مکمل کرے گا۔ چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ایپ دنیا بھر میں خاص طور پر نوجوانوں میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ ٹک ٹاک کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس ایپ کے استعمال کرنے کے لیے کم از کم عمر 13 برس مقرر ہے۔


اطالوی حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ''ہم کمپنی کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اس دوران حکام نے اٹلی میں اس نیٹ ورک پر موجود نابالغ بچوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

اطالوی واچ ڈاگ نے ٹک ٹاک کمپنی پر 'نابالغ اور کم عمر بچوں کے تحفظ پر بہت کم توجہ‘ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو اس پلیٹ فارم تک رسائی دینے کی سخت مذمت کی ہے۔


ٹک ٹاک ک کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں تاہم کہا، ''ٹک ٹاک کمیونٹی کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے ہم ایسے مواد اور رویوں کی تشہیر اور حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو خطرے کا باعث بن سکتے ہوں۔‘‘

بچی کی ہلاکت کیسے ہوئی؟


اطالوی علاقے سسلی میں رواں ہفتے بدھ کے روز دس سالہ بچی کے چھوٹے بھائی نے اپنی بہن کو اپنے گھر کے غسل خانے میں بے ہوشی کے عالم میں دیکھا تھا۔ بچی کے پاس اس کا فون بھی تھا جسے پولیس نے قبضے میں لے لیا ہے۔ کم سن بچی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں ہفتے کے روز اس کا انتقال ہو گیا۔

والدین کا کہنا ہے کہ کم سن بچی بظاہر ٹک ٹاک پر 'بلیک آؤٹ چیلنج‘ کے لیے ویڈیو بنا رہی تھی۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری اس مقابلے کے لیے گردن کے گرد بیلٹ وغیرہ باندھ کر سانس روکی جاتی ہے اور اس عمل کو فلمایا جاتا ہے۔


بچی کے والد اینجلو سیکومیرو نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''اس کی زندگی ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے گرد ہی گھومتی تھی، اپنا تمام وقت وہ انہی پلیٹ فارمز پر گزار رہی تھی۔‘‘ گزشتہ روز پاکستان میں بھی ایک نوجوان ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔