وائرس؟ کیسا وائرس؟ ہندوستان میں سب کام پر

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کے اعتبار سے بھارت اب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، تاہم مہاراشٹر سے مغربی بنگال تک، فیکٹریاں، کارخانے اور مارکیٹیں یوں کھلی ہیں، جیسے کورونا کوئی شے ہے ہی نہیں۔

وائرس؟ کیسا وائرس؟ بھارت میں سب کام پر
وائرس؟ کیسا وائرس؟ بھارت میں سب کام پر
user

ڈی. ڈبلیو

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کل بدھ کے روز تک ہندوستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 77 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں اس عالمی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سولہ ہزار کے قریب ہے۔ تاہم بھارت میں کئی ایسے علاقے ہیں، جہاں روزمرہ کی سرگرمیاں بالکل عمومی انداز میں جاری ہیں، جب کہ رواں ماہ درگا پوجا اور دیوالی جیسے تہواروں پر اجتماعی جشن کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔

بھارت میں سخت ترین لاک ڈاؤن پر لاکھوں افراد بھوک اور افلاس کی زد میں آ گئے تھے، جس کے بعد نئی دہلی حکومت نے طے کیا کہ زندگی کو معمول کی جانب لوٹا دیا جائے۔


سونالی ڈنگے دو بیٹیوں کی والدہ ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے وہ اس برس ہسپتال میں داخل ہوئیں تھیں، تاہم اس 29 سالہ خاتون کو بچت کا سارا پیسہ خرچ ہو جانے پر ایک فیکٹری میں کام پر دوبارہ فوراﹰ ہی لوٹنا پڑا۔ یہ خاتون 25 ہزار روپے ماہوار پر ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ ممبئی کے نواح میں نوبل ہائی جین پلانٹ میں کام کرنے والے سونالی ڈنگے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''میں اب ٹھیک ہوں۔ میں بیماری سے اب خوف زدہ نہیں ہوں۔‘‘

عالمی وبا کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں امیر ممالک میں دیکھی گئی ہیں، جہاں معمر شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ امریکا کی آبادی بھارت کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے، تاہم وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھارت کے مقابلے میں دگنی ہے۔ دوسری جانب عالمی بینک کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں اس عالمی وبا کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور افلاس میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک سو پچاس ملین افراد شدید غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بہت سے غریب ممالک میں اس صورت حال میں بچوں سے جبری مشقت کا معاملہ بڑھا ہے، جب کہ ہزاروں لڑکیوں کی جبری شادیاں بھی کی گئی ہیں۔


دوسری جانب نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اگر ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کا راستہ اپنایا جاتا ہے، تو اس لاک ڈاؤن کا نقصان اس وائرس کے پھیلاؤ سے ہونے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔