جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت، فوڈ بینکس کی حالت بد سے بدتر

جرمنی کے قریب نصف فوڈ بینکس کے صارفین کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے۔

جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت، فوڈ بینکس کی حالت بد سے بدتر
جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت، فوڈ بینکس کی حالت بد سے بدتر
user

Dw

جرمنی کے تقریباً نصف فوڈ بینکوں کے صارفین کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنی ہوگئی ہے اور بہت سے ضرورت مندوں تک غذائی امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ بڑھتی ہوئی مانگ اور عطیات میں کمی کے سبب بہت سے غرباء کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں اور ان کے پاس اپنی ضروریات پورا کرنے کے متبادل ذرائع بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔

کورونا کی عالمی وبا پہلے ہی گوناگوں مسائل کا سبب بنی ہوئی تھی اور اب سونے پر سہاگا حالیہ کساد بازاری ہے۔ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ مقامی اخبارات ایسی خبروں اور تبصروں سے بھرے پڑے ہیں، جن میں ضرورت مند افراد کو فوڈ بینکوں کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں کی طرف سے فوڈ سپلائی کی قلت کے سبب مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


فوڈ بینکوں کی صورتحال

جرمنی میں فوڈ بینک کو ''ٹافل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سابق جرمن دارالحکومت شہر بون کے ایک فوڈ بینک کے رضاکارانہ گؤنٹر گیسا نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ فوڈ بینکوں کی ممبرشپ یا رکنیت کی درخواستوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''فی الوقت ہم نئے کلائنٹس کو صرف اُس وقت لے سکتے ہیں جب دوسرے افراد اپنی رکنیت منسوخ کر دیں۔ ہماری صلاحیت مکمل طور سے اپنی حد تک پہنچ چُکی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال باعث شرم ہے کیونکہ بہت سے افراد کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا،'' انہیں ہماری ضرورت ہے۔‘‘ جرمنی میں درحقیقت قریب 13.8 ملین شہری خط غربت کے قریبیا اس سے نیچے پہنچ چُکے ہیں۔ اگر توانائی سے محروم گھرانوں کی تعداد کی اندازہ لگایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 2021ء کے مقابلے میں ایسے گھرانوں کی تعداد 2022 ء میں دوگنا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔


ماہرین اس تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی پیش گوئی کر رہے ہیں کیونکہ جرمنی کی '' لوئر مڈل کلاس‘‘ والے گھرانوں کے لیے آسمان سے باتیں کرتے توانائی کے اخراجات یعنی بل وغیرہ کی ادائیگی کے لیے کافی مالیاتی وسائل موجود نہیں ہیں۔ یہ صورتحال جرمنی کی اقتصادیات کو مسلسل نیچے کی طرف لے جا رہی ہے۔

جنگ اور مہنگائی ضروریات میں اضافے کا سبب

جرمنی کے فوڈ بینکوں کی سرپرست تنظیم ''ٹافل ڈوئچ لینڈ‘‘ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں قائم 60 ہزار مراکز میں سے قریب 61 فیصد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس رکنیت کی درخواستوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تمام 60 ہزار فوڈ بینکوں میں سے 30 فیصد کے پاس دو گنا زیادہ صارفین ہیں کیونکہ دیگر فوڈ بینکس ان کی مدد سے انکار کر چُکے ہیں اور ضرورت مندوں کو ان سے مایوسی ہوئی ہے۔


اس صورتحال کی جزوی وجہ یوکرین پر روس کا حملہ ہے۔ گؤنٹر گیسا کہتے ہیں،'' مارچ کے ابتدائی ہفتے بے حد مشکل تھے۔ بہت سے شہری، جو ہمارے پاس آتے تھے، ان کے پاس ایک یورو بھی نہیں ہوتا تھا، بالکل پیسوں کے بغیر۔ ان کے جسم پر محض لباس ہوتا تھا۔‘‘ ایک 45 سالہ خاتون بتاتی ہیں،''فوڈ بینکوں کے باہر نئے آنے والوں کی ایک علیحدہ لائن لگتی تھی۔ بعض اوقات نئے کلائنٹس اور پرانے جرمن صارفین کے مابین جھگڑا بھی ہوا۔ پرانے کلائنٹس کا خیال تھا کہ نئے کلائنٹس کو خاص مراعات دی جا رہی ہیں۔‘‘

فوڈ بینکوں میں نفسانفسی کا عالم

جیسے جیسے جرمنی کی روزمرہ زندگی اور سماجی نظام میں یوکرینی پناہ گزینوں کو ضم کیا جا رہا ہے، ویسے ویسے جرمن فوڈ بینک میں یوکرینی خاندانوں کے افراد کی شمولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یوکرینی باشندے جنگ اور بحران سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کیٹ ایک بالغ طالب علم ہے اور ایک بچے کی ماں بھی ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے اپنے ایک بوڑھے دوست کیساتھ ہر ہفتے ٹافل یا فوڈ بینک جایا کرتی ہیں۔ رواں سال موسم گرما میں اس نے خود کو فوڈ بینک میں رجسٹر کروانے کی کوشش کی۔ اس طرح وہ ان بہت سارے لوگوں میں سے ایک ہے، جنہیں مغربی جرمن شہر کولون کے ایک گنجان علاقے میں قائم فوڈ بینک سے نامراد لوٹنا پڑا۔


کیٹ کہتی ہیں،''صورتحال سنگین ہے، ضرورت مندوں کو بارش میں گھنٹوں فوڈ بینک کے باہر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عطیات پہنچانے والے آتے ہیں اور رضاکار سب سے پہلے اپنی مرضی کی چیزیں لے لیتے ہیں، اُس کے بعد صارفین کو بے ترتیب چیزیں چننے کا موقع ملتا ہے۔ ان میں زیادہ طرح پھل اور سبزیاں اور بہت سی روٹیاں وغیرہ میسر ہوتی ہیں، جو بڑی تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں۔

یکجہتی کی اپیل

ٹافل ڈوئچ لینڈ اعداد و شمار کی نہایت تاریک تصویر پیش کرتے ہیں۔ رواں سال اگست میں کم از کم 62 فیصد فوڈ بینکوں نے اطلاع دی کہ وہ فی گھر کم اشیاء فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سے بھی اس تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ تقریباً آدھے فوڈ بینکوں نے بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے اوقات کار بڑھا دیے ہیں، جس کی وجہ سے رضاکار کارکنوں کو جسمانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہے اور وہ صحت مند رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔


تنظیم نے عطیات میں نمایاں کمی کی بھی اطلاع دی ہے کیونکہ زیادہ تر شہری اپنے بجٹ کو سختی سے کنٹرول کر رہے ہیں۔ ٹافل ڈوئچ لینڈ نے حال ہی میں ایک ''یکجہتی اپیل‘‘ شروع کی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرد مہینوں میں مزید لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے، ہر کوئی اپنے مقامی فوڈ بینک کو کال کرے اور پوچھے کہ انہیں سب سے زیادہ کن اشیاء کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔