پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنانے والی ملکی تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے فوری ختم ہونے کا تو کوئی امکان نہیں ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقدامات ایسے ہیں جن پر عمل کر کے کچھ کمی لائی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
user

Dw

پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسز میں اضافے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والی زیادتی سے آج کل پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ مہنگائی کی اس شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی ماہرین اقتصادیات نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کو خواہشات اور ضروریات میں فرق سامنے رکھنا ہو گا۔ گھر کے اخراجات کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے اور بہت ضروری اخراجات کی ایک لسٹ بنائی جانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شاپنگ مال پہنچ کر بہت سی ایسی چیزیں خرید لی جاتی ہیں جو بظاہر اہم نہیں ہوتیں۔ شاپنگ کے اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی گھر میں عام طور پر جو ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، ان میں مکان کا کرایہ ، یوٹیلٹی بلز، سودہ سلف، تعلیمی اخراجات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔


'کفایت شعاری سے کام لیا جائے'

ڈاکٹر عفیرہ حامد ایک ریٹائرڈ استاد ہیں اور آج کل اپنے بچوں کے ساتھ لاہور میں مقیم ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سادہ طرز زندگی اپنا کر بھی مہنگائی کی شدت سے بچا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول اگر نمائشی برتری کے اظہار سے بچتے ہوئے دوسروں کی دیکھا دیکھی مہنگے برانڈز کی اشیا خریدنے کی بجائے سیل میں لگی ہوئی اشیا خریدی جائیں تو اس سے بھی بچت ممکن ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول، ''اسی طرح مہنگے شاپنگ مالز سے خریداری کرنے کی بجائے سستی دوکانوں سے شاپنگ کی جانی چاہیے۔ اگر آپ بازار کی بجائے ہر ہفتے منڈی جا کر فروٹ اور سبزیاں زیادہ مقدار میں ہفتے بھر کے لیے خرید سکیں تو اس سے بھی بچت ہو سکتی ہے۔ ‘‘

'گوشت کم، سبزیوں کا زیادہ استعمال'

ڈاکٹر عفیرہ حامد کہتی ہیں کہ آج کل مرغی کے گوشت کے ریٹس بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا "مرغی کے گوشت کی کم مقدار کو سبزی کے ساتھ پکا کر آپ زیادہ مقدار میں مرغی خریدنے سے بچ سکتے ہیں۔ اسی طرح مٹن کے بے تحاشا استعمال سے بچتے ہوئے اگر ہم بیف کے قیمے سے کباب اور کوفتے بنا کر سبزیوں کے ساتھ کھا لیں تو اس سے بھی بچت ممکن ہو سکتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ مہنگی سبزیوں سے کچھ وقت کے لیے ہاتھ روک کر سستی سبزیوں کا زیادہ استعمال کرنا بھی مفید ہوگا۔


'ایک کمائے اور پانچ کھائیں، ایسا نہیں چلے گا!'

بطور ورکنگ وومین اور خاتونِ خانہ ڈاکٹر عفیرہ حامد کہتی ہیں، '' اس مہنگائی میں ایک کمائے اور پانچ کھائیں والا فارمولہ نہیں چلے گا۔ اب چار کمائیں گے تو پانچ ٹھیک سے کھا سکیں گے۔ بچیاں اپنے گھروں میں بچوں کو پڑھائیں، خواتین آن لائن کھانا فروخت کریں۔ سلائی کڑھائی سیکھیں۔ بڑے لڑکے سیلز مینی کرلیں یا ویک اینڈ پر اضافی جاب کریں۔ پھر جا کر معاملات درست ہوں گے۔‘‘

'مل کر بچت کرنا ہوگی‘

لاہور کے علاقے ابدالین سوسائٹی میں چند رہائشیوں نے مہنگے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات بچانے کے لیے بچوں کے پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لی ہیں۔ پہلے دس کلومیٹر دور ایک ہی اسکول میں بچوں کو چھوڑنے چار گاڑیاں جاتی تھیں اب ایک گھر کی گاڑی بچوں کو اسکول چھوڑ آتی ہے اور دوسرے گھر کی گاڑی لے آتی ہے۔ اگلے دن یہ ذمہ داری دوسرے گھر والے ادا کرتے ہیں۔


لاہور کے ایک اور علاقے واپڈا ٹاؤن میں پڑھی لکھی گھریلو خواتین نے بچوں کو گھر پر پڑھانے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ بچے مہنگے اسکولوں میں جانے کی بجائے ایک گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں اور خاتون خانہ انہیں پڑھاتی ہیں۔ اگلے دن بچے دوسرے گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں دوسرے گھر کی خاتون بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ یہاں گھر پر پڑھنے والے بچوں کی تعداد سولہ تک پہنچ چکی ہے یہ بچے پانچویں جماعت میں رسمی اسکول میں جاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بلال نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ کسی بھی گھر میں کم بجلی استعمال کرنے والے آلات (پنکھے، اینرجی سیور، اچھے میعار کی تاریں اور انورٹرز اے سیوغیرہ) لگا کر بجلی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول سولر انرجی کے استعمال والے گھروں میں بھی بجلی کا بل کم آتا ہے۔ اسی طرح مہنگی بجلی والے اوقات (پیک آورز) میں بجلی کم استعمال کرکے بل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ بلال نے کہا، ''ہم گھر کے تمام افراد دن بھر اے سی والے ایک کمرے میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ہم بار بار پانی کی موٹر نہیں چلاتے، فضول لائیٹس بند رکھتے ہیں اور بچوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ واش روم کے استعمال کے بعد وہاں بجلی بند کرنے کو یقینی بنائیں، گیٹ لائیٹس صبح سویرے بھجا دیتے ہیں، اور گارڈن لائیٹس صرف ضرورت کے وقت ہی استعمال کرتے ہیں۔‘‘


لاہور کے ایک اور رہائشی محمد عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اپنی رہائش اپنے کام کی جگہ کے قریب شفٹ کر لی ہے اور بچوں کا اسکول بھی قریب ہی ڈھونڈ لیا ہے۔

فرحت جاوید نامی ایک خاتون نے کہا، ''بعض اوقات ہم ضرورتاﹰ نہیں بلکہ عادتاﹰ کھاتے پیتے ہیں۔ ہمیں جب یاد آتا ہے، ہم چائے پینے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی کھانے پینے کی عادتوں کو بھی درست کرنا ہوگا۔ گھی اور تیل کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں تو ہمیں تلی ہوئی اشیا کا استعمال کم کرنا ہوگا۔‘‘


'حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام'

اقتصادی تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ مہنگائی کے مقابلے کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کی بجائے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرکے عام آدمی کو ریلیف دینا چاہیے۔ "لمبی چوڑی کابینہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔" ان کے مطابق مہنگائی کی تازہ لہر پاکستان کے مزید لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیلنے اور بہت سے بچوں کو اسکول چھوڑ کر کام پر جانے پر مجبور کردے گی۔ ان کے خیال میں حکومت غریبوں کے لیے 'ٹارگٹڈ سبسڈی' کا اعلان کرے۔ خالد رسول سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لیے آبادی میں بے تحاشا اضافے کو بھی روکنا ہوگا۔

ایک دوسرے ماہر معیشت سید ارتقا زیدی نے بتایا کہ ملک میں ڈالر کی قدر بڑھنے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے اور نئے اشیا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا اس سے کہیں زیادہ اضافہ تاجروں نے کر دیا ہے۔ "حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔" وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں، لالچی مڈل مینوں اور بدعنوان تاجروں کو لگام ڈال سکے تو اس سے بھی مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔