ہجوم کے ہاتھوں فرد کا قتل ایک معاشرے کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

گزشتہ برس انہی دنوں مشتعل ہجوم نے میاں چنوں میں ایک شخص کو مسجد سے نکال کر مار مار کر ہلاک کر ڈالا تھا۔ اب ایسا ہی واقعہ ننکانہ صاحب میں دیکھنے کو ملا۔

ہجوم کے ہاتھوں فرد کا قتل ایک معاشرے کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
ہجوم کے ہاتھوں فرد کا قتل ایک معاشرے کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
user

Dw

نیوز ہیڈ لائنز اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کی وجہ سے ایسے واقعات کے اثرات کا دائرہ متاثرہ خاندانوں یا علاقے سے نکل کر پورے ملک تک پھیل جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات مقتولین کے خاندانوں کو انفرادی، معاشرے کو اجتماعی اور ملک کو بین الاقوامی سطح پر کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے واقعات نفسیاتی طور پر کیسے اثرات مرتب کرتے ہیں۔


’یہاں بچانے والا کوئی نہیں سب مارنے والے ہیں‘

گزشتہ برس 13 فروری کو خانیوال کے رہائشی مشتاق احمد کو لوگوں نے مسجد سے نکال کر توہین مذہب کے الزام میں ہلاک کر ڈالا تھا اور بعد میں ان کی لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔ ان کے بھائی ذولفقار احمد آج بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”میرا بھائی تو تھا ہی ذہنی معذور مگر اینٹیں اور لاٹھیاں چلانے والوں کو ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ کیسا ظلم کر رہے ہیں۔ میں نے بھائی کی ویڈیوز دیکھی تھیں، جو اتنی تکلیف دہ تھیں کہ میں سوچتا ہوں کاش میں نے وہ نہ دیکھی ہوتیں، کاش وہ بہن سے ملنے نہ گیا ہوتا، اب یہ دکھ جیتے جی میرے اندر سے نہ جائے گا، اس کا کوئی مرہم نہیں۔‘‘


انہوں نے مزید کہا، '' آج بھی وہ منظر ذہن میں گھومتا ہے کہ کیسے سب نعرے لگا کر ایک دوسرے کو اسے مارنے پر اکسا رہے ہیں، یہاں بچانے والا کوئی نہیں سب مارنے والے ہیں۔" ایسے بہت سارے واقعات میں متاثرہ فریق کو حساس مذہبی الزامات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ بعد میں انہیں کس طرح کے معاشرتی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تین برس قبل وسطی پنجاب میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے بھائی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ابتدا میں ہم بہت دباؤ میں تھے یہاں تک کہ کچھ ہمدردوں نے مشورہ دیا کہ مقدمے کی پیروی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لوگوں کا عمومی رویہ ٹھیک تھا لیکن اس کے باوجود یہ خوف بہت گہرا تھا کہ کب کیا ہو جائے۔‘‘


ان کا مزید کہنا تھا، ''آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آنا شروع ہوئی لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی لوگوں کے سامنے اس واقعے کا ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہمارے دل کی کیفیات ہم ہی جانتے ہیں، لیکن لوگوں کے سامنے ہم اپنے مقتول بھائی سے ایک طرح کا فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔"

’تشدد ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا، ریاست کہیں نظر نہیں آتی‘

جرمنی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد زمان قائد اعظم یونیورسٹی میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے کی ساخت اور یہاں پنپنے والے رویوں پر ایک کتاب اور کئی تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں۔


ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”ہمارے ہاں صحت مند سرگرمیوں کا شدید فقدان ہے سو لوگ اپنا غصہ اور گھٹن تخریبی کارروائیوں کے ذریعے نکالتے ہیں۔ آپ جس طرف نظر اٹھائیں لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی معاشرتی گھٹن میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے، ایسے میں تشدد ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے، ریاست کہیں نظر نہیں آتی۔"

ان کا مزید کہنا تھا، ”ملک میں پہلے ہی رواداری اور برداشت کا کلچر معدوم ہو چکا ہے۔ ایسے واقعات خوف کی فضا مزید تاریک کر دیتے ہیں۔ اختلافی نقطہ نظر پیش کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ بات کی جائے یا نہیں اور کی جائے تو کیسے کی جائے۔‘‘ ڈاکٹر محمد زمان نے کہا، ''اظہار رائے جیسے بنیادی حقوق سے محرومی کا احساس کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک خوف اور بداعتمادی کی فضا ہے۔ ریاست تعلیمی نظام کے ذریعے احترام انسانیت سکھانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں۔"


’ایک فرد نہیں ریاست کا چہرہ مسخ ہوتا ہے‘

گزشتہ برس جب میاں چنوں میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تو سینیٹر عرفان صدیقی نے سینٹ میں کہا تھا، ”ہمیں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) میں بٹھایا جاتا ہے تو ہمارا چہرہ ایسے واقعات کے بعد زیادہ تاب ناک نہیں رہتا۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”دنیا کسی بھی ایسے معاشرے کو قبول نہیں کر سکتی جس میں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے کرتے ہوں۔ ایسے واقعات میں ایک فرد نہیں ریاست کا چہرہ مسخ ہوتا ہے جس سے ہماری بین الاقوامی تجارت اور یہاں تک کہ سفارتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔"


سابق وفاقی وزیر قانون اور رکن پارلیمان خالد رانجھا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”کسی بھی ریاست کا امیج ایسے واقعات سے بنتا بگڑتا ہے۔ دنیا سے کوئی معاشرہ چھپا ہوا نہیں۔ غیر جانبدار ادارے جب ایسے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں تو پاکستان کے پاس اپنی صفائی میں بولنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے ممکن ہے ایسا ہو کہ یہ واقعہ کسی چھوٹے گاؤں میں چند جاہلوں کی کارستانی ہے، لیکن دنیا اسے پاکستانی عوام کے اجتماعی رویے کے طور پر دیکھے گی جس کے بعد ریاستی عملداری کے سوالات اٹھتے ہیں۔"

’پورا معاشرہ نفسیاتی مریض ہے‘

’پاکستانی معاشرہ، ایک سماجی و نفسیاتی تجزیہ‘ کے مصنف اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک سے ڈی ڈبلیو اردو نے ایسے واقعات کے نفسیاتی پہلو جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ”ہلاک ہونے والے فرد کے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے یہ زندگی بھر کا صدمہ ہے جس کی شدت وقت کے ساتھ کم ہو سکتی ہے مگر وہ اس کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں آ سکتے۔"


وہ بتاتے ہیں، ”ایسا لگتا ہے ہماری اجتماعی نفسیات ایسے واقعات کو معمول سمجھ کر قبول کر چکی ہے، دو دن سوشل میڈیا پر اس کے خلاف چند آوازیں بلند ہوتی ہیں، پھر لوگ بھول جاتے ہیں، عوامی سطح پر کوئی موثر ردعمل سامنے آتا ہے نہ ریاستی سطح پر، جب ایسے واقعات معمول بن جائیں تو سمجھیں پورا معاشرہ نفسیاتی مریض ہے۔"

ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کا مزید کہنا تھا، ”ننکانہ صاحب میں پیش آنے والے واقعہ کی طرح بیشتر واقعات میں ملزمان ذہنی مریض ہوتے ہیں، ان کا علاج ہونا چاہیے لیکن یہاں انہیں قتل کر دیا جاتا ہے اور انہیں قتل کرنے والے خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔ یہ غیر انسانی رویہ ہے جو ہمارے اندر راسخ ہو چکا۔ اس میں یونیورسٹی گریجویٹس سے لے کر اَن پڑھ عوام تک ہر طبقہ شامل ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔