موت کے اعدادوشمار میں برطانیہ نے اٹلی کو کیسے پیچھے چھوڑ دیا؟

برطانیہ میں کوویڈ ۔19 کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد 30،000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ برطانیہ اب اموات کی تعداد کے حوالے سے اٹلی کو پيچھے چھوڑ چکا ہے۔

موت کے اعدادوشمار میں برطانیہ نے اٹلی کو کیسے پیچھے چھوڑ دیا؟
موت کے اعدادوشمار میں برطانیہ نے اٹلی کو کیسے پیچھے چھوڑ دیا؟
user

ڈی. ڈبلیو

برطانوی حکومت پر کورونا بحران کے حوالے سے دباؤ غير معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ اگرچہ برطانیہ ایک ایسا ملک سمجھا جاتا تھا جس میں یہ وائرس سست رفتاری سے پھیل رہا تھا لیکن اب اچانک ايسے اعداد و شمارسامنے آۓ ہيں جن سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ برطانيہ ميں کوویڈ ۔19 ميں مبتلا ہو کر موت کے مںہ ميں چلے جانے والے افراد کی تعداد کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بالٹیمور میں امریکی یونیورسٹی آف جانس ہاپکنز کے تازہ تريں اعدادوشمار ميں اٹلی اور برطانیہ ميں ہونے والی اموات اور ناول کورونا وائرس سے متاثرہ مريضوں کی تعداد کا موازنہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

ان اعدادوشمار سے جہاں برطانیہ ميں مزید خوف پیدا ہوا ہے وہاں لندن حکومت کی طرف سے کیے گۓ اقدامات پر کڑی تنقید اور اس بحران سے نمٹنے ميں اس کی ناکامی پر شدید نکتہ چینی ہورہی ہے۔


خاص طور یہ امر تشويش کا باعث بن گیا ہے کہ منگل کے روز برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ سوشل کئیر کی طرف سے پیش کيے گئے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ کے اندر کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 29427 ہو چکی ہے جبکہ برطانوی قومی ادارۂِ شماریات کے مطابق دو مئی تک 32313 افراد کے ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ پر موت کی وجہ کورونا وائرس درج ہے۔

محکمہ صحت اور ادارہ شماریات کے اعداد و شمار میں تضاد کے بارے ميں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے لندن ميں مقيم ایک سينیئر صحافی فريد قريشی نے کہا،" اعداد و شمار میں تضاد پہلی بار 14 اپریل کو سامنے آیا جب محکمہ صحت نے بتایا کہ برطانیہ میں ہسپتالوں کے اندر 11329 افراد کورونا سے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ قومی ادارہ شماریات نے ان لوگوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جو ہسپتالوں سے باہر گھروں یا کئیر ہومز میں ہلاک ہوئے، ان کی تعداد 5058 تھی۔"


ميڈیا کے زرائع سے ملنے والے اعداد و شمار کے بارے ميں فريد قريشی کا کہنا تھا کہ برطانوی محکمہ صحت کی طرف سے اموات اور مریضوں کے اعداد و شمار روزانہ کی بنیاد پر مہیا کيے جاتے رہے تاہم ان میں ہسپتالوں سے باہر کورونا سے مرنے والوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے میڈیا کو رپورٹنگ میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ فريد قريشی کے بقول،"برطانوی وزیر صحت ڈومینک راب نے منگل کے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ دیگر یورپيئن ممالک میں ہسپتالوں سے باہر ہوئی اموات کا ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جا رہا اس ليے دوسرے ممالک سے برطانیہ کا موازنہ درست نہیں، دوسری جانب شیڈو ہیلتھ منسٹر جوناتھن آشورتھ نے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔"

برطانیہ ميں کورونا وائرس کو حکومتی سطح پر ہی سنجیدہ نہيں لیا گیا اور عوام کو یہ تائثر دیا جاتا رہا کہ برطانیہ ميں صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔ ان خیالات کا اظہار برمنگھم کے ايک پاکستاںی ماہر امراض نفسيات ڈاکٹر حسن جاويد نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتکو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر حسن جاويد ايسوسی ايشںن آف پاکستاںی فيزیشنز آف نورتھ یورپ "اپنے” کے ايگزيکٹيو بھی ہیں۔ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،" 3 مارچ کو ايک پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نے کہا


کہ وہ رات میں ایک ہسپتال میں تھے جہاں انہيں لگا کہ واقعی میں وہاں کچھ کورونا وائرس کے مریض تھے۔ اور انہوں نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا ، بورس جانسن نے فخرسے کہا میں مصافحہ کرتا رہتا ہوں۔"

ڈاکٹر حسن جاويد نے وزیر اعظم کے اس رویے کو "انتہائی غير ذمہ دارانہ اور لاعلمی کا ثبوت قرار دیا۔"


برطانیہ ميں کورونا وائرس کے پھيلاؤ اور کوویڈ ۔19 کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد ميں غير متوقع طور پر اضافے کی مرکزی وجوہات کے بارے ميں ماہر امراض نفسيات ڈاکٹر حسن جاويد کا کہنا تھا،" حکومت نے کورونا کی وبا کو ھيچ سمجھا، اس کے سدباب کے لیے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کیے گۓ، ضروری طبی اشیا کا فقدان، بڑی وجوہات ہیں۔"

ڈاکٹر حسن جاويد کے مطابق برطانیہ کے ہسپتالوں میں پی پی ای یعنی "پرسنل پروٹکشن اکوپمنٹ" کی ایک تو بہت کمی ہے دوسرے یہ ڈبلیو ايچ او کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ميں طبی عملے کے 175 سے زائد اراکان بھی ہلاک ہوئے ہيں جن ميں ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر اسٹاف ممبرز بھی شامل ہيں۔


پاکستانی ڈاکٹروں کی شمالی یورپ کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے "اپنے” نے معیاری حفاظتی ایکوپمنٹ کی ابتدا میں شدید کمی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی بڑی تعداد میں اموات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہیں ان ڈاکٹروں اور نرسوں میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کی غیرمعمولی اکثریت پر بھی گہری تشویش ظاہر کی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس معاملہ میں فوری معیاری تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جانا جاسکے کہ نسلی اقلیتوں کے پروفیشنلز اورعام افراد غیرمعمولی طور پراموات یا شدید بیماری کا شکار کیوں ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */