جرمن سماجی آداب وبا کے بعد بھی ویسے ہی جیسے پہلے تھے؟

جرمن باشندے کبھی مصافحہ کرنے میں عالمی چیمپئن مانے جاتے تھے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا تاہم جرمنوں کے سماجی آداب و اطوار میں واضح تبدیلی کا سبب بنی۔

جرمن سماجی آداب وبا کے بعد بھی ویسے ہی جیسے پہلے تھے؟
جرمن سماجی آداب وبا کے بعد بھی ویسے ہی جیسے پہلے تھے؟
user

Dw

جرمن شہری کبھی مصافحہ کرنے میں عالمی چیمپئن تھے، لیکن کووڈ انیس کے وبائی مرض نے ان کی یہ عادت چھڑا دی تھی۔ ڈی ڈبلیو کی لوئزا شیفر نے اس بارے میں غور کیا کہ آیا کورونا کی وبا کے بعد جرمن آداب کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں؟

لوئزا چند ہفتے پہلے اپنے ڈاکٹر کے پاس گئیں، جہاں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ جرمنی میں کورونا کی وبا سے پہلے لوگ ایک دوسرے سے ملنے میں جن آداب کا خیال رکھتے تھے اور وبا کے دوران جن کو وہ ترک کر چکے تھے، اب وبا کے خاتمے کے بعد وہ دوبارہ انہیں آداب پر عمل پیرا ہیں۔


لوئزا کہتی ہیں، ''میں کولون میں اپنے ڈاکٹر کے پاس گئی۔ جیسے ہی وہ ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا، اس نے سب سے پہلے میری طرف ہاتھ بڑھایا، مصافحے کے لیے۔ پہلے تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا، پھر میں نے ہنستے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا واقعی ہمیں اب دوبارہ ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ ڈاکٹر بھی ہنسا اور اس نے کہا، ہاں، ہمیں دوبارہ ایسا کر نے کے قابل بننا پڑے گا۔‘‘

لوئزا چونکہ اپنے آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے کلینک میں FFP2 ماسک پہن کر گئی تھیں، اس لیے وہ ڈاکٹر کے ہاتھ ملانے پر مزید حیرت میں پڑ گئیں۔ لوئزا کے ذہن میں اس واقعے کے بعد یہ سوال ابھرا، ''کیا ہم واقعی چیزوں کو بالکل پہلے کی طرف نارمل بنانا چاہتے ہیں؟‘‘


آپ کو حیران ہونا چاہیے

جرمنی میں کسی سے بھی ملتے وقت مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے کا رواج دراصل کووڈ انیس کے زمانے میں لگی کورونا پابندیوں کے سبب ختم ہو چکا تھا۔ اب جبکہ تقریباً تمام کورونا پابندیاں اٹھا دی گئی ہیں، ڈاکٹروں کے کلینکس، ہسپتالوں، نرسنگ ہومز اور طبی دیکھ بھال کے دیگر مقامات پر اب بھی FFP2 ماسک پہننا ضروری ہے۔ لوئزا کے مطابق، ''اس لیے بھی میرے ڈاکٹر نے جب میری طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو مجھے بہت حیرت ہو رہی تھی۔‘‘

لوئزا نے 2019ء میں 'میٹ دا جرمنز‘ کے عنوان سے ڈوئچے ویلے کی سیریز کے لیے ایک کہانی لکھی تھی، جس میں انہوں نے جرمن آداب و اطوار کی تفصیلات شامل کی تھیں۔ ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا تھا کہ جرمن باشندے ہر کسی سے ہاتھ ملانے کے معاملے میں تقریباﹰ 'ورلڈ چیمپئن‘ ہیں کیونکہ وہ اتنی پابندی سے ہاتھ ملاتے ہیں کہ مصافحہ کرنا گویا ان کا قومی کھیل ہو۔ جرمن باشندے رسمی یا کاروباری ملاقاتوں میں یا کسی سے تعارف کرواتے وقت تو ہاتھ ملاتے ہی ہیں، لیکن جرمنی میں اگر کسی کی سالگرہ ہو، چاہے وہ کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو، تو اس سے بھی سالگرہ کی مبارکباد دیتے وقت ہاتھ ملایا جاتا ہے۔


جرمنی عالمی وبا کے بعد بھی پہلے جیسا ہی ہے؟

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تین سال بہت کٹھن تھے۔ انہوں نے عام لوگوں کے ایک دوسرے سے میل جول میں انہیں انتہائی سخت اطوار سکھا دیے۔ مثال کے طور پر کسی بھی قطار میں کھڑے ہو کر ڈیڑھ میٹر کا لازمی فاصلہ رکھنا اور ہاتھ ملانے کے بجائے پیر ملانا وغیرہ۔

اب 2023ء میں کورونا کی وبا اور اس کی سختیوں کے خاتمے کے بعد عام شہریوں کو کسی سے بھی ہاتھ وغیرہ ملانے کے معاملے میں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے جرمن شہر ایسن میں قائم ایک مشاورتی انجمن 'کنیگی ایسوسی ایشن‘ کی ترجمان لنڈا کائزر سے بات چیت کی۔ ''ڈاکٹر کے کلینک میں وبا سے پہلے بھی ڈاکٹر کا کسی مریض سے ہاتھ ملانا میرے لیے بہت غیر معمولی بات تھی۔ کیا میں واقعی کسی ایسے شخص سے مصافحہ کرنا چاہوں گی، جس مجھ سے پہلے ایک اور مریض کا معائنہ کیا ہو؟ اس مریض کو کوئی بھی ممکنہ بیماری ہو سکتی ہے؟‘‘ لنڈا کائزر اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''کم از کم اب، ہم اس طرح کے مصافحوں سے انکار کر سکتے ہیں اور یہ کوئی بدتمیزی نہیں ہو گی۔‘‘


کچھ آداب دوبارہ سیکھنا

کنیگی ایسوسی ایشن کی ترجمان لنڈا کائزر کا کہنا ہے کہ عام شہری بدتمیزی اور بدسلوکی کا تاثر دیے بغیر بھی دیگر آداب پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا، ''کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے جاننے والوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔ ہم سب کو کورونا ویکسین لگ چکی تھی اور ایک بار کووڈ انیس کے وائرس کا حملہ بھی ہو چکا تھا، اس لیے ہم ایک دوسرے سے گلے ملنے میں خود کو نسبتاً محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ لیکن جب میں نے خواتین میں سے ایک کے ساتھ گلے ملنے کی کوشش کی، تو اس نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا: نہیں، میں ایسا نہیں کروں گی۔ میں تھوڑا سا چونک گئی تھی، لیکن پھر اس نے وضاحت کی کہ آئندہ ہفتے اس کا ایک آپریشن ہونا تھا اور وہ کس قسم کا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔‘‘

لنڈا کائزر کہتی ہیں کہ دراصل ہر کوئی جزوی طور پر ايسے ہی انداز سے آداب سیکھ رہا ہے۔ احترام اور شائستگی کے ساتھ کیسے ایک دوسرے سے ملا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ سوالات یہ اٹھ رہے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تہنیت کیسے کی جائے، کیا کسی کو گلے لگایا جا سکتا ہے، وغیرہ۔


آن لائن آداب سکھانا بمقابلہ ذاتی طور پر

لاک ڈاؤن کے دوران، لنڈا کائزر نے جرمن آداب کے بارے میں آن لائن کورسز بھی پیش کیے، لیکن وہ زیادہ نظریاتی تھے، مثلاﹰ ٹیبل کیسے لگائی جائے، شراب کا گلاس کیسے رکھیں، آپ کسی سے کیسے مخاطب ہوں، وغیرہ۔ لنڈا کائزر کہتی ہیں کہ یہ آن لائن کورسز بالمشافہ کسی سے کچھ بھی سیکھنے سے بہت مختلف تھے۔ ''ایک دوسرے کی موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کی جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے یہ مشورہ خاص طور پر ان نوجوانوں کو بھی دیا، جنہوں نے وبا کے دور میں ہی اپنی کوئی نہ کوئی اولین ملازمت شروع کی تھی۔

لنڈا کائزر کے مطابق بہت سے لوگ ویڈیو کانفرنسوں میں شرکت کے آداب کے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں، لیکن جب ان سے ذاتی طور پر ملاقات کی جائے، تو وہ بہت شرمیلے اور خود کو اپنی ہی ذات میں بند محسوس کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ لنڈا کائزر کا مشاہدہ یہ ہے کہ تین سال تک ہوم آفس کرنے کے بعد واپس دفتری ماحول میں لوٹنا اور تمام تر آداب و اطوار کا لحاظ رکھنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔