عید صرف بچوں کی نہیں ہوتی، پڑھیے تحریم عظیم کا بلاگ

آپ نے عید کے موقع پر اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ ہماری کیا عید۔ ہم نے جتنی عید منانی تھی بچپن میں منا لی۔ ہمارے لیے اب عید کا مطلب ڈھیروں اخراجات ہیں۔

عید صرف بچوں کی نہیں ہوتی، پڑھیے تحریم عظیم کا بلاگ
عید صرف بچوں کی نہیں ہوتی، پڑھیے تحریم عظیم کا بلاگ
user

Dw

ہم ان تہواروں سے زیادہ کسی کی شادی پر خوش ہوتے ہیں۔ عید پر سب پر سستی چھا جاتی ہے۔ مرد عید کا دن سوتے ہوئے گزارتے ہیں اور عورتیں باورچی خانے میں کھانے پکاتے ہوئے، برتن دھوتے ہوئے یا اردگرد بھاگتے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے اپنی عید گزار دیتی ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں عید کسی بھی گھرانے کے لیے ایک اضافی اور بہت بڑا خرچہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سب کے نئے کپڑے بنیں گے، نئے جوتے آئیں گے۔ لڑکیوں کی چوڑیاں، مہندی، اور دس چیزیں۔ پھر عیدی کا خرچہ الگ۔


ہمارے بچپن میں فی بچہ عیدی کا ریٹ سو روپے ہوتا تھا۔ اس وقت کے سو روپے کی قدر آج کے سو روپے کی قدر سے بہرحال زیادہ ہی ہوتی تھی۔ آج کسی بچے کو سو روپے دیتے ہوئے انسان خود شرمندہ ہو جاتا ہے۔ کم سے کم بھی عیدی دینی ہو تو ہزار روپے فی بچہ عیدی دینی پڑتی ہے۔ جن کے بچے شادی شدہ ہیں انہیں ان کی عیدی کا الگ سے اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ان کے کپڑے بھی جائیں گی، مٹھائی بھی جائے گی، پھل بھی جائیں گے اور پھر نقد رقم بھی جائے گی۔

بڑے لوگوں کو چھوڑ دیں۔ ان کی تو کلاس ہی الگ ہے۔ وہ ہزاروں میں عیدیاں بانٹتے ہیں۔ جیسے ہماری ایک پرانی دوست عید کے بعد ملیں تو کہنے لگیں کہ انہیں ان کے بہنوئی نے چالیس ہزار روپے عیدی دی ہے۔ ہم حیران ان کی شکل دیکھتے رہے کہ اس ملک میں اتنی عیدی بھی دی جاتی ہے۔


ہم عام لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو اپنی چادر دیکھتے ہوئے پاؤں پھیلاتے ہیں۔ ان کے لیے عید ایک اضافی خرچہ ہی ہوتی ہے۔ اس طبقے پر رسومات کا بوجھ بھی کافی ہوتا ہے۔ یہ ایسے مواقعوں پر خود ہی اپنی چادر سے باہر اپنے پاؤں نکال کر اپنے لیے مشکل پیدا کر لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے۔

عید تو سب کی ہوتی ہے۔ اسلام کے مطابق عید رمضان کے اختتام پر مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے۔ اس تحفے کو انہوں نے اپنے اوپر خود بوجھ بنا لیا ہے۔ طرح طرح کی رسومات نکال لی ہیں۔ فضول خرچیاں، دکھاوا اور زرا سی باتوں پر لمبے چوڑے جھگڑے۔ اگر یہ فضول خرچیاں کم کر لی جائیں، دکھاوے سے جان چھڑا لی جائے اور آپسی جھگڑوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے دل میں جگہ دے دی جائے تو بڑے بھی بچوں کی طرح خوشی سے عید منا سکتے ہیں۔


بچے چھوٹی چھوٹی بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ دل میں کینہ اور حسد نہیں رکھتے۔ جو دل میں ہوتا ہے وہی بول دیتے ہیں۔ وہ ایک پل لڑ رہے ہوتے ہیں تو دوسرے پل ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہم بڑے سالوں پہلے کہی ہوئی کسی بات کو دل میں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی خوشی کا موقع آتا ہے تو ہمارے دل میں وہ بات اچھلنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر نہ ہم خود خوشی منا پاتے ہیں نہ اپنے اردگرد دوسروں کو خوشی منانے دیتے ہیں۔

بچوں کے لیے عید خوشی کا دن ہوتی ہے۔ گھر میں پکوان بن رہے ہوتے ہیں۔ وہ نئے کپڑے پہن کر تیار ہو کر سب سے اپنی عیدیاں وصول کرتے ہیں۔ اور پھر ان عیدیوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ جیسے بچپن میں ہم سب کزن عیدی ملتے ہی قریبی چوک پر ایک ٹھیلے والے سے دال بھری کچوریاں کھانے جایا کرتے تھے۔ ہماری اسی میں عید ہو جاتی تھی۔ گھر میں کون کس سے ناراض ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہم آپس میں ہنستے بولتے اپنی عید منا لیتے تھے۔


شام میں پتہ لگتا تھا کہ اماں ابا سے اینٹھی بیٹھی ہیں۔ دادی الگ غصہ ہیں۔ پھوپھو ہنستے ہوئے کسی چچی کو باتیں لگا رہی ہیں۔ اس وقت ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن پتہ لگ جاتا تھا کہ معاملہ کچھ خراب سا ہے۔ پھر ہماری عید بھی بے رونقی ہو جاتی تھی۔ تہوار کی خوشیاں ایک دوسرے سے ہوتی ہیں۔ جس دن سب ایک ساتھ بیٹھ جائیں وہی خوشی کا دن ہوتا ہے تو جب ایک دن اسی مقصد کے لیے آ رہا ہے تو اسے خوشی خوشی کیوں نہ منایا جائے۔ کیوں اس دن کو پچھلی ناراضگیوں کے حوالے کرتے ہوئے اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے تباہ کیا جائے۔

کیوں عید کو بس بچوں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کیوں نہ اس دن ہم خود بھی اپنی خوشی کے لیے کچھ کریں۔ رشتے داروں سے دوستوں سے تنازعات ہیں تو انہیں حل کرنے کا سوچیں یا کم از کم ان تنازعات کو اپنی عید نہ خراب کرنے دیں۔ اگر یہ مشکل لگ رہا ہو تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مل بیٹھیں۔ باتیں کریں، تصاویر بنائیں، اچھے اچھے پکوان کھائیں، کہیں گھومنے جائیں یا بس گھر بیٹھ کر اپنی پرانی تصاویر دیکھیں۔ گزرا ہوا اچھا وقت یاد کریں۔


عید منانے کی کوشش کریں گے تو ہی عید منائی جائے گی ورنہ یہ تین دن بھی باقی دنوں کی طرح گزر جائیں گے اور پھر سے وہی روٹین کی زندگی شروع ہو جائے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */