جرمنی میں فون ایپس کے ذریعے ڈلیوری کا پرخطر کام

سائیکلوں پر ڈلیوری کا کام کرنے والے ورکروں سے متعلق کئی جائزوں کے نتائج کے مطابق ان کارکنوں میں سے نصف ہر سال ٹریفک حادثات میں بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں۔

جرمنی میں فون ایپس کے ذریعے ڈلیوری کا پرخطر کام
جرمنی میں فون ایپس کے ذریعے ڈلیوری کا پرخطر کام
user

Dw

جرمن دارالحکومت برلن میں ہوم ڈلیوری کے کاروبار نے ایک دہائی قبل مقبولیت حاصل کی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب برلن میں قائم 'لِیفرہَیلڈ‘ نامی کمپنی نے ایسے پلیٹ فارم متعارف کرائے تھے، جن کے ذریعے لوگ گھر بیٹھے ریستورانوں سے کھانا منگواتے تھے۔ بعد ازاں سن 2013 کے آس پاس اس تجارتی ماڈل کی جگہ آن لائن سروس اور پھر موبائل فون ایپس نے لے لی۔ اس نئے ماڈل سے صارفین کو یہ سہولت میسر آ گئی کہ وہ ایسے ریستورانوں سے بھی کھانا منگوا سکتے تھے، جن کے پاس ہوم ڈلیوری کے لیے عملہ موجود نہیں تھا۔ اس طریقہ کار نے آن لائن اور ایپ ڈلیوری سروسز کے شعبے میں روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا کیے۔ اس نوعیت کی ملازمت کے لیے نسبتاﹰ لچکدار اوقات کار مہیا کیے گئے اور تربیت کا معیار بھی واجبی سا رکھا گیا۔

اب ڈلیوری سروس کا یہ کاروبار خوراک اور اشیائے صرف کی ترسیل سے نکل کر بہت سے دیگر شعبوں تک پھیل رہا ہے۔ جرمنی میں قائم ایک کمپنی 'میڈ‘ نے گزشتہ برس لوگوں کو ان کی دہلیز تک ادویات پہنچانے کا کاروبار شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کمپنی 25 جرمن شہروں میں پھیل گئی اور اس نے 900 ملازمین بھرتی کر لیے۔


میڈ کے شریک بانی ہانو ہائنٹسن بیرگ کے مطابق، ''اس سال کے آخر تک ہم پورے جرمنی میں سر گرم ہوں گے۔‘‘ انہوں نے اس کاروبار کو ہمسایہ ممالک آسٹریا اور فرانس تک وسعت دینے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ ڈراپ نامی ایک کمپنی بھی اسی طرح کے ماڈل کے تحت برلن میں صارفین کو ای کامرس مصنوعات فراہم کر رہی ہے۔

قابل اعتراض کاروباری ماڈل

ڈلیوری ایپس کے ذریعے کاروبار کے دفاع میں ایک عام دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس نے بڑے پیمانے پر ملازمتیں مہیا کیں۔تاہم اس شعبے میں کام کرنے والے ملازمین کو متعدد مسائل درپیش رہتے ہیں۔ انہی مسائل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں برلن میں قائم اشیائے خورد و نوش کی ترسیل کرنے والی ایک کمپنی گوریلاز کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی سن 2020 سے لے کر اب تک 15 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کر چکی ہے۔


برلن میں آج دسیوں ہزار ڈلیوری ورکر کام کر رہے ہیں۔ ملازمت کے یہ مواقع متعدد غیر ملکی طلبا کو جرمن زبان میں مہارت کی شرط کے بغیر ہی کام کرنے کے لچک دار اوقات مہیا کرتے ہیں۔ تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ڈلیوری سے وابستہ کارکنوں کو کام کے دوران چوٹیں لگنے کے واقعات عام ہیں جبکہ انہیں اجرتوں کی نامکمل ادائیگی اور کسی بھی یونین کی عدم موجودگی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ زیادہ تر ڈلیوری کمپنیاں ممکنہ طور پر اپنے کارکنوں کے استحصال میں ملوث ہیں۔

کارکنوں کے مسائل

بائسیکل ڈلیوری ورکرز کے حالات سے متعلق مختلف سروے گیے گئے، جن کے نتائج کے مطابق ان میں سے نصف کے قریب کارکنوں کو ہر سال مختلف ٹریفک حادثات میں خطرناک چوٹیں لگتی ہیں۔ ٹریفک حادثات کے علاوہ ان افرراد کی کمر پر لدا بھاری بوجھ بھی ان میں پٹھوں کی چوٹوں کا باعث بنتا ہے۔


جرمنی میں ڈلیوری ورکرز کو اسی کمپنی کا ملازم تصور کیا جاتا ہے، جو انہیں کام کے لیے ساز و سامان مہیا کرتی ہے ۔ ان ورکروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جو صرف ایک کمپنی کی ایپ استعمال کرنے کی وجہ سے اس کے ملازم کہلاتے ہیں۔

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے یونیورسٹی آف لائپزگ کے ادارہ برائے جمہوری تحقیق کے ڈپٹی چیئرمین یوہانس کِیس کہتے ہیں، ''کمپنیوں پر انحصار ان ملازمین کو چند حقوق بھی مہیا کرتا ہے، جن میں کم سے کم اوسط لازمی اجرت اور ہیلتھ انشورنس وغیرہ بھی شامل ہیں۔‘‘ یوہانس کِیس نے مزید کہا، ''ان ورکروں کا استحصال تنخواہوں کی نامکمل ادائیگیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان کا کام دنیا کی نظر میں ایک باقاعدہ ملازمت کی بجائے صرف ایک نوکری ہے۔‘‘


سرمایہ کاری کی شدید کمی

گزشتہ سال گوریلاز کمپنی کے ورکروں کے مختلف گروہوں نے نامکمل تنخواہوں، اچانک برطرفیوں اور دوسرے مسائل کے حل کے لیے احتجاج کیا۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود تنخواہوں کی جزوی ادائیگی کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ گوریلاز نے پوری اجرتیں ادا نہ کرنے کے مسئلے سے متعلق ایک بیان میں کہا، ''بڑی کمپنیوں میں جہاں بہت سے ملازمین کام کرتے ہوں، وہاں بعض مواقع پر انفرادی تنخواہوں کے معاملے میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ اس وقت ایک سے چار فیصد تک کے درمیان تنخواہوں کی ادائیگی میں غلطیاں ہوئی ہیں، جن کی جلد درستگی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔‘‘

تاہم ماضی میں گوریلاز کے ساتھ کام کرنے والے ایک پیپلز آپریشنز مینیجر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب انہوں نے ایک سال پہلے وہاں کام شروع کیا، تو گوریلاز کی افرادی قوت کی ٹیم عملےکی شدید کمی کا شکار تھی۔ ان کی ٹیم کو مقررہ تنخواہوں کی ادائیگی میں کمی سے متعلق اوسطاﹰ 900 شکایات موصول ہوتی تھیں۔ ان شکایت میں سے نصف کمپنی کے بیماری سے متعلق اور دیگر چھٹیوں کا ریکارڈ رکھنےکے نظام میں غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی تھیں۔ اس سابق مینیجر کے مطابق، ''سرمایہ کاری کی شدید کمی ہے۔ جب آپ کے ملازمین کی تعداد دس ہزار ہو تو آپ انہیں محض کسی 'ایکسل شیٹ‘ کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘


ورکروں کی حمایت اور منافع؟

سپین سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ میگل خودیس پیشے کے اعتبار سے ایک بائیو ٹیکنالوجسٹ ہیں۔ وہ چھ ماہ سے برلن میں مقیم ہیں اور ابلاغیات کی سائنس میں ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے کے قریب ہیں۔ ساتھ ہی وہ جرمن زبان کے ایک اسکول میں بھی زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے دسمبر میں 'فلنک‘ نامی ایپ کےساتھ اشیائے خورد و نوش کی ڈلیوری کا کام شروع کیا۔ اپنے اب تک کے کام کے تجربے کے بارے میں خودیس کا کہنا ہے، ''یہ کام میری توقع سے بہتر ہے۔ میرے مالکان اچھے لوگ ہیں اور مجھے کھانے کا بہت سا سامان مفت ملتا ہے۔‘‘ تاہم عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ابتدائی دنوں میں ملازمین ڈلیوری کمپنیوں کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کمپنیاں ان کارکنوں کا استحصال کر سکتی ہیں۔ اس کی وجہ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری میں آنے والی کمی ہے، جو ان کمپنیوں کو منافع کمانے کے دیگر راستے تلاش کرنے پر مائل کر تی ہے۔

خودیس نے بھی فلنک کے کام کرنے کے طریقہ کار میں چند تبدیلیوں کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کو دیکھتے ہوئےاپنے لیے کام کے اوقات کا تعین کر سکتے تھے۔ تاہم یہ طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہےاور اب وہ کام کے لیے اپنے ترجیحی دنوں کی صرف نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ورکروں کو ایسے اوقات میں بھی کام کے لیےکہا جاتا ہے، جب ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔ اس صورتحال کا نتیجہ کام سے غیر حاضریوں اور برطرفیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔


بے تحاشا سرمایہ کاری کی بنیاد پر چلنے والی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی دنیا میں اچھی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر میسر ہوتے ہیں۔ گوریلاز نے اپنے آغاز کے پہلے ہی سال ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جمع کرکے تجارتی خبروں کی شہ سرخیوں میں جگہ بنائی تھی۔ میڈ کو سرمایہ کاری کی مد میں اس سال جنوری تک 45 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقوم موصول ہوئی تھیں۔

تاہم ان کم عمر اور پھیلتی ہوئی کمپنیوں کے بہت سے اخراجات بھی ہیں۔ نئے گاہکوں کے لیے رعایتی نرخوں پر سامان کی ترسیل، تیزی سے پھیلتے ہوئے گوداموں کی جگہوں کا کرایہ اور ہزاروں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگیوں کے بعد ان کی سرمایہ کاری سکڑنا شروع ہو جاتی ہے لیکن انہیں پھر بھی منافع بخش رہنا پڑتا ہے۔ گوریلاز کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ''بھرپور ترقی کے دور سےگزرنے کے بعد گوریلاز کی توجہ ایک مضبوط اور منفعت بخش کاروبار کھڑا کرنے پر مرکوز ہو چکی ہے۔ اس وقت ہمارے 25 سے زائد مراکز منافع میں چل رہے ہیں۔‘‘


تاہم اپنی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے منتظر، گھروں کا کرایہ ادا نہ کر سکنے والے یا ٹریفک حادثات کے باعث زخمی ہونے والے ملازمین کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمپنیاں انسانی زندگی کے معیار پر سمجھوتہ کر کے منافع کما رہی ہیں۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ایک کمپنی صرف صارفین کے دیے ہوئے پیسوں سے ڈلیوری کا کام جاری رکھ کر اپنے ملازمین کوگزارے لائق تنخواہیں اور مراعات فراہم کر سکتی ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔