مذہبی علامات کی پیداوار، برآمد کی عالمی منڈی پر چین کا غلبہ

بین الاقوامی سطح پر بہت سے صارف معاشروں میں دیگر شعبوں کی طرح مختلف مذاہب کی نمائندہ علامات کی منڈی پر بھی چین ہی کا غلبہ ہے۔ رمضان میں جائے نماز ہو یا تسبیح ان پر بھی ’میڈ ان چائنہ‘ ہی نظر آتا ہے۔

مذہبی علامات کی پیداوار، برآمد کی عالمی منڈی پر چین کا غلبہ
مذہبی علامات کی پیداوار، برآمد کی عالمی منڈی پر چین کا غلبہ
user

Dw

جرمنی میں آباد قریب ساڑھے پانچ ملین مسلمان ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان کا مہینہ مذہبی جوش و خروش سے منا رہے ہیں۔ جرمنی کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ترک، عرب اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والی بڑی متنوع مسلم آبادی اپنے اپنے علاقوں میں قائم مارکیٹوں میں خریداری کرتی نظر آتی ہے۔ جرمنی کے سابق وفاقی دارالحکومت بون کا وہ علاقہ، جو ماضی میں غیر ملکی سفارت خانوں کا مرکز تھا، وہاں اب ہر طرف عرب مسلمانوں کی دکانیں، ریستوراں اور کیفے نظر آتے ہیں۔ اس علاقے میں اس سال رمضان سے پہلے ایک نئی دکان کا افتتاح ہوا۔ اس دکان میں رمضان کی مناسبت سے ہر طرح کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ جائے نماز، قران رکھنے کے لیے رحل، خوبصورت تسبیحوں اور عطریات جیسی اشیاء خریدنے والوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔

اس دکان میں فروخت ہونے والی 99 فیصد اشیاء چینی ساختہ تھیں، اور خریدار جوق در جوق انہیں خرید رہے تھے۔ گاہکوں کی اکثریت کا تعلق عرب ممالک سے تھا اور وہ بڑی خوشی سے ایسے آلات بھی خرید رہے تھے، جن سے دن میں پانچ وقت اذان کی آواز باقاعدگی سے سنی جا سکتی تھی۔


ایک ایسے دور میں جب پوری دنیا افراط زر، توانائی کی کمی اور مہنگائی سے پریشان ہے، رمضان کے دوران گھروں کو سجانے کے لیے سامان، رنگ برنگے قمقموں والی جھالروں اور دیگر مصنوعات خریداری مذہبی علامات تیار اور فروخت کرنے والے شعبوں کے لیے خوب منافع بخش ثابت رہی ہے۔

مشرق ہو یا مغرب، تقریباً سبھی معاشروں میں مذہبی تہواروں میں ثقافتی رنگ کا امتزاج انہیں زیادہ خوبصورت اور پرکشش بنا دیتا ہے۔ مغربی ممالک میں خاص طور پر جہاں مسیحی اقدار عوامی زندگی کا حصہ نظر آتی ہیں، وہاں سال کے چار موسموں کے علاوہ کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں کو بھی خاص انداز میں منانے کا رواج ہے۔ بات یہ ہے کہ تجارتی منڈیوں کے لیے دنیا کے تمام مذہبی اور ثقافتی تہواروں کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ان تہواروں سے منسلک مصنوعات کے کاروبار سے ہونے والے منافع کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اس کا حجم کتنا بڑا ہے۔


چین عالمی سیاسی منظر نامے پر نہایت اہم ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ایک طرف سیاسی اور سفارتی سطح پر چین کے چند حالیہ اقدامات نے بڑی طاقتوں کے ساتھ ساتھ خود اسلامی دنیا کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے تو دوسری جانب چین اپنی تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ بھی مسلسل وسیع تر کرتا جا رہا ہے۔ دنیا کے بہت سے خطوں کو چین کی تجارتی بالا دستی سے خطرات لاحق ہیں۔ اس کے باوجود چین نے اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ایران اور سعودی عرب کے مابین عشروں سے چلے آ رہی کشیدگی کے خاتمے اور منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ثالث بن کر خود کو ایک نئے کردار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ چین کے اس کردار نے مسلم دنیا کو ایک بار پھر بیجنگ کی صلاحیتوں کا قائل کر دیا ہے۔ چین جو پہلے ہی اپنی تجارتی سرگرمیاں بڑھاتا جا رہا تھا، اب مسلم معاشروں میں اپنا سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ بھی بڑھانے لگا ہے۔

2019ء میں چین نے ایک نیا قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت پانچ برسوں میں چین میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے چینی ثقافت کے رنگ میں ڈھالنے کے طریقہ کار کو دوبارہ سے تحریری شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس وقت چینی دارالحکومت میں حکام نے حلال خوراک والے ریستورانوں اور کھانے پینے کے اسٹالوں کے مالکان کو حکم دیا تھا کہ وہ عربی رسم الخط اور اسلام سے وابستہ علامات ہٹا دیں۔ اس کا مقصد چین کی مسلم آبادی کو 'چینی بنانے‘ کی قومی کوشش تھا۔


چین میں عربی رسم الخط اور اسلامی امیجز کے خلاف مہم دراصل اسی بارے میں جاری مہم کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی تھی۔ یہ مہم 2016ء سے زور پکڑ رہی تھی اور اس کا مقصد مختلف مذاہب کو چینی ثقافت کے مرکزی دھارے کے ساتھ مطابقت میں لانا تھا۔ اس مہم میں چینی طرز کے پگوڈاز کے مقابلے میں ملک بھر کی مساجد کے 'مشرق وسطیٰ کی طرز والے‘ گنبدوں کو ہٹانا بھی شامل تھا۔

چین بیسیوں ملین مسلمانوں کا بھی وطن ہے، جہاں سرکاری طور پر مذہبی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ تاہم حکومت نے ان مسلمانوں کو کمیونسٹ پارٹی کے اس نظریے سے ہم آہنگ بنانے کی مہم چلا رکھی ہے، جس کی بنیاد ہی لادینیت پر ہے۔


چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے غیر انسانی سلوک کی عالمی سطح پر نہ صرف مذمت کی جاتی رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے تو اسے 'ایغور مسلمانوں کی نسل کشی‘ تک قرار دیا۔ اس کے باوجود 2019ء میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر ان 37 ممالک میں شامل تھے، جنہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایک خط پر دستخط کیے تھے، جس میں چین کی طرف سے 'بین الاقوامی انسانی حقوق کے شعبے میں تعاون‘ کی تعریف کی گئی تھی، وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ چین کے یہ اقدامات علاقائی 'حفاظت اور سلامتی‘ کے لیے نہایت ضروری ہیں، اس لیے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں 'دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی‘ کا مقابلہ ضروری تھا۔

یہ ایسا واحد موقع نہیں تھا جب عرب رہنماؤں نے چینی مسلمان شہریوں پر ہونے والے جبر کے معاملے میں چینی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2019ء میں چین کا دورہ کیا، تو انہوں نے اعلان کیا تھا، ''چین کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کا حق حاصل ہے۔‘‘ اس کے علاوہ مارچ 2019ء میں سعودی عرب ہی سے اسلامی ممالک کے بلاک تنظیم برائے اسلامی تعاون (OIC) کے ایک بیان میں 'مسلمان شہریوں کی دیکھ بھال کرنے‘پر چین کی تعریف بھی کی گئی تھی۔


چین میں ایغور مسلم برادری کے ساتھ حکومت کے بہیمانہ رویے کے حوالے سے عرب رہنماؤں کے واضح اظہار رواداری کی وجہ محض اقتصادی اور سیاسی مفادات ہیں۔ چین ایک اہم تجارتی شراکت دار اور سرمایہ کار ملک ہے اور مشرق وسطیٰ کے برآمدی تیل کا بنیادی صارف بھی۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے بیرون ملک سرمایہ کاری اور اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے باعث بھی چین مشرق وسطیٰ کے لیے بہت زیادہ جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کا حامل ملک ہے۔

ایران، قطر اور ترکی جیسے ممالک نے بھی بیجنگ کے چینی مسلم اقلیتی آبادی پر جبر سے متعلق بالواسطہ انداز اپنایا۔ اقتصادی طور پر چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے والا ایران بھی بیجنگ کی پالیسیوں کے خلاف بولنے سے گریزاں ہے۔ ایران اور چین سرمایہ کاری اور تیل سے متعلق ایک 25 سالہ معاہدے پر دستخط بھی کر چکے ہیں۔


ان حالات میں یہ بات سمجھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے کہ چین، جس کی برآمدات دنیا کے تقریباﹰ ہر ملک میں پہنچتی ہیں، اپنی 'میڈ ان چائنہ‘ مصنوعات کے ساتھ اب خاص طور پر مسلم معاشروں اور مسلم اقلیتوں والے غیر مسلم معاشروں تک میں اسلامی مذہبی علامات کی فروخت پر بھی غالب آ چکا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔