کوئلے کی کانیں اور پاکستان کے مزدور بچے

کان کنی بلوچستان کی بڑی صنعتوں میں سے ايک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں ساڑھے چار سو سے زائد کوئلے کی کانیں ہیں۔ قوانين کے باوجود آج بھی ان کانوں ميں سينکڑوں بچے کام کر رہے ہيں۔

کوئلے کی کانیں اور پاکستان کے مزدور بچے
کوئلے کی کانیں اور پاکستان کے مزدور بچے
user

Dw

کوئلے کی کانوں میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد مزدوری کرتی ہے۔ دنیا بھر میں بچے مختلف شعبوں میں اپنے گھر کی کفالت کے ليے مزدوری کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ قدم قدم پر موت کے خطرے کے باوجود یہ بچے اس جگہ کو اپنے روزگار کے ليے چنتے ہیں۔ 14سالہ غلام عباس کم عمری میں ہی خاندان کی ذمہ داريوں کا بوجھ ليے ایک سال قبل اپنے والد، بھائی اور چچا کے ساتھ کوئلے کی کان میں کام کرنے کے ليے افغانستان سے پاکستان آیا۔

غلام عباس کا تعلق افغانستان کے شہر ہرات سے ہے۔ اس کا خاندان چوبيس افراد پر مشتمل ہے۔ عباس کے والد، بھائی اور چچا بھی کوئلے کی کان میں ہی کام کرتے ہیں۔ اس کا باقی خاندان افغانستان میں ہے اور وہاں کھيتی باڑی کا کام کرتا ہے۔ عباس ایک سال قبل افغانستان سے کام کرنے کے ليے پاکستان آیا تھا۔ تب وہ 13 سال کا تھا۔ ''ميں بے روزگاری کی وجہ سے یہاں کوئلے کی کان میں کام کرنے آیا تھا۔ میں مچھ اور آب گم کوئلے کی کان میں میٹ کھلی يا کوئلہ اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہوں۔ روزانہ 8 سے 10 گھنٹے تک کام کرتا ہوں۔‘‘


غلام عباس کے بقول یہ کام اسے پسند نہیں ۔ ''میں بھی دوسروں کی طرح اسکول جانا چاہتا ہوں مگر غربت کے باعث یہ کام کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر مجبوری نہ ہو تو کسی کو اچھا نہیں لگتا کہ بچپن ميں ہی بہن، بھائی، والدہ اور گھر کو چھوڑ کر اتنا سخت کام کرے۔‘‘

افغانستان میں اپنے گھر کو یاد کرتے ہوئے عباس نے بتایا کہ شروع شروع میں جب وہ یہاں آیا، تو اسے اپنے گھر والوں کی بہت یاد آتی تھی اور وہ اداس ہو جاتا تھا۔ اسے اپنی والدہ اور چھوٹے بھائیوں کی بہت زیادہ یاد آتی ہے۔ وہ ہر اس عمر کے بچے کی طرح اپنی والدہ سے بہت پیار کرتا ہے۔ ''پہلی دفعہ میری والدہ کو جب پتہ چلا کہ میں پاکستان میں کوئلے کی کان میں کام کرنے جا رہا ہوں تو وہ بہت اداس ہوئی اور اس نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ميں پاکستان جا کر کام کروں۔ تب میں نے کہا کہ ماں یہ کام مجھے بھی پسند نہیں لیکن مجبوری ہے۔ میری والدہ اب بھی میرے اس کام سے خوش نہیں، وہ چاہتی ہيں کہ ميں افغانستان واپس جا کر وہاں کاشت کاری کا کام کروں۔ جب اداس ہوتا ہوں اور گھر کی یاد ستاتی ہے، تو والد کا یہ کہا یاد آ جاتا ہے کہ جب تک کام نہیں کرو گے تو گھر نہیں چل سکے گا۔‘‘ عباس اپنے گھر والوں کے ليے محنت کرتا ہے۔ اس کا بڑا بھائی، جس کی عمر 25 سال ہے، بھی کوئلے کی کان میں کام کرتا ہے۔


چودہ سالہ عباس ماہانہ آٹھ تا دس ہزار کما لیتا ہے اور اپنی پوری تنخواہ گھر بھیج دیتا ہے۔ انہی رقوم سے گھر کا خرچہ چلتا ہے۔

''یہاں کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم دو ہفتے مکمل طور پر کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں جس کے بعد تین دن کی چھٹی ملتی ہے اور راشن وغیرہ لینے کے ليے ہم کوئٹہ جاتے ہیں۔ فرنٹيئر کور کی نگرانی میں کارواں کی صورت میں ہمیں کوئلے کی کھانوں کی طرف لے کر جایا جاتا ہے اور نگرانی میں ہی دو ہفتے بعد ہميں پہاڑوں سے اتار کر شہر لایا جاتا ہے۔‘‘


اس نے مزيد بتايا کہ رہائش کے ليے کمرہ کمپنی کی جانب سے دیا جاتا ہے جو کہ کام کی جگہ سے تقریباً 20 سے 25 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ وہ روزانہ صبح ناشتہ کر کے کام کی طرف جاتا ہے۔ کان کی جگہ پر کھانے کے ليے لنگر کا انتظام ہوتا ہے۔ ہفتے میں دو دن گوشت بنتا ہے اور باقی پانچ دن دال اور سبزی وغیرہ بنتی ہے۔ بيت الخلاء کمروں سے دس منٹ کے فاصلے پر ہیں۔

غلام عباس کہتا ہے کہ اس نے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ''میں بھی دوسروں کی طرح پڑھ لکھ کر اپنے والدین کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں مگر بدقسمتی يا مجبوری کے باعث، اب ہماری زندگی اسی کوئلے کی کان میں ہے۔‘‘ غلام عباس کو فٹ بال کھیلنے کا بہت شوق ہے اور وہ پاکستان آنے سے پہلے دوستوں کے ساتھ افغانستان میں يہ کھيل کھيلا کرتا تھا۔ کانوں کے قريب کھیلنے کا کوئی بندوبست نہیں۔


غلام عباس کے والد 54 سالہ عبدالحسین گزشتہ پچيس سال سے کوئلے کی کان میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی اپنے بچے کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہيں ليکن افغانستان ميں خراب حالات اور بے روزگاری کی وجہ سے وہ مجبوراً یہ کام کر رہے ہیں۔ ''ہم یہاں سے کمائی کے نو ہزار روپے گھر بھیجتے ہیں، جو افغانی چار ہزار پانچ سو روپے بنتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ پہاڑ کے اندر جاتے ہيں، تو واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ کب کان کی چھت بیٹھ جائے یا کب کان کے اندر گیس بھر جائے۔ ''ہمارے پاس زندگی گزارنے کا آخری آپشن کوئلے کی کان میں کام کرنا ہے۔‘‘

سماجی کارکن کاشف حیدری نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں میں بنیادی طور پر جو حفاظتی اقدامات ہونے چاہيں، وہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر کوئلے کی کان میں کام کرنے کے ليے حفاظتی کیپ، آکسیجن وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو وہاں میسر نہیں۔ انہوں بتایا کہ مچھ سانحے کے بعد سے بچوں سےکانوں ميں کام لینے کی ممانعت ہے لیکن غربت کے باعث یہاں بچے خود کام کرنا چاہتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے بچے رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں کان کن بچوں کی صحیح تعداد کا پتا چلانا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے۔


چیئرپرسن قومی کمیشن برائے حقوق اطفال افشاں تحسین کہتی ہیں کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر پر کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق صوبوں کو اس مسئلے کے حل کے ليے قانون سازی کرنی چاہيے۔ وہ کہتی ہيں، ''اگر بچوں کا بچپن تباہ کر دیں گے، ان کے کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر ميں ان سے کام کرايا جائے گا، تو آگے چل کر وہ معاشرے میں مثبت کردار کیسے ادا کریں گے؟ انہوں نے مزيد بتايا کہ بچوں سے ایک ہزار روپے ماہانہ پر بھی مزدوری کرائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی انہيں مارا پيٹا بھی جاتا ہے۔ بچوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانا سب سے پہلے والدین اور پھر ریاست کی ذمہ داری ہے۔'' ہمیں خیال رکھنا ہے کہ بچوں کا استحصال نہ ہو، ان کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے۔‘‘

پاکستان میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے مائنز ایکٹ 1923 لاگو ہے، جس کے تحت خطرناک کام کرنے والے بچوں کی عمر کم سے کم بھی 15 ہونی چاہيے۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم فراہم ہو۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ1991ء کے حصہ سوئم اور سیکشن سات کے تحت کسی بھی بچے یا نابالغ سے ایک دن میں سات گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا جبکہ ان سات گھنٹوں میں ایک گھنٹہ آرام کا بھی شامل ہے۔


اس ضمن ميں قوانين پر عمل درآمد کو يقينی بنانے کی ضرورت ہے اور یہ احساس پیدا کرنے کی بھی کہ غلام عباس جیسے بچے جو سرحد پار سے آتے ہیں، وہ بھی انسان ہیں اور ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہونے چاہيئيں، جو اپنے ملک کے بچوں کو فراہم ہيں۔ چائلڈ لیبر کا خاتمہ اس طرح ممکن ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات کا تعین کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔