کیا بھارت آبادی کے چیلنج سے نمٹ سکتا ہے؟

اگلی تین دہائیوں کے دوران عالمی افرادی قوت کا قریب 22 فیصد بھارت سے آنے کا امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر زیادہ ہنر مند کارکنوں کو تربیت نہ دی گئی تو ملک میں بے روزگاری ایک 'بہت بڑا مسئلہ‘ ہو گی۔

کیا بھارت آبادی کے چیلنج سے نمٹ سکتا ہے؟
کیا بھارت آبادی کے چیلنج سے نمٹ سکتا ہے؟
user

Dw

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے برس یعنی 2023 میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی موجودہ آبادی 1.412 بلین ہے جب کہ چین کی آبادی 1.426 بلین ہے۔ اندازوں کے مطابق سن 2050 تک بھارتی آبادی 1.668 بلین اور چین کی آبادی 1.317 بلین ہو گی۔

سن 2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ آٹھ ممالک میں مرکوز ہونے کی توقع ہے، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سن 2050 تک بھارت میں مجموعی شرح پیدائش موجودہ شرح 2.01 سے کم ہو کر 1.78 رہ جائے گی۔


بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ یجنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے برسوں تک آبادی پر قابو پانے کی پالیسیوں پر زور دیا ہے۔ تاہم سن 2015 میں یہ شرح 2.2 فیصد تھی، جو 2019 میں دو فیصد کے قریب آ گئی جس کے بعد سے حکمران جماعت نے اس پالیسی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اقتصادیات اور صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو فوری طور پر اپنی تعلیمی، معاشی، اور سماجی پالیسیوں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت پر زور دیتے ہوئے بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی سے وابستہ لیکھا چکرورتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بڑی آبادی کے ساتھ حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد فراہم کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں بہتری کے لیے لوگوں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔


چکرورتی کا مزید کہنا تھا، ''اگر آبادی میں اضافہ ہنر مند لیبر فورس میں اضافے کا سبب بھی بنے تو اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی غربت اور عدم مساوات کے پیش نظر سماجی تحفظ اور صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی اضافے کے خدشات ہیں۔‘‘

ہنر مندی اور تربیت کی فراہمی کی ضرورت

سن 2011 سے اب تک بھارت کی نصف سے زائد آبادی کام کرنے کی عمر میں ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ دو دہائیوں تک بھی صورت حال ایسی ہی رہے گی۔ سن 2050 تک اس عمر والے بھارتی شہریوں میں 183 ملین افراد کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگلی تین دہائیوں میں عالمی افرادی قوت کا قریب 22 فیصد بھارت سے آئے گا۔


انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز سے وابستہ پروفیسر اپراجیتا چٹوپادھائے کہتی ہیں، ''اگر ہنرمند تربیت کی فراہمی متناسب طور پر نہیں بڑھی تو بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہو گی۔ روزگار کی منڈی میں مزید لوگوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اور آئندہ برسوں میں اس کو ترجیح دی جانا چاہیے۔‘‘ چٹوپادھائے کا مزید کہا تھا کہ اس ضمن میں ''حکومت کا 'اسکل انڈیا‘ پروگرام اہم قدم ہو گا، جس میں آئی ٹی، الیکٹرانکس اور گرین انرجی سمیت کئی دیگر شعبوں میں روزگار پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔‘‘

نوجوان بے روزگاری سے غیر متناسب طور پر متاثر

بھارتی معیشت پر نظر رکھنے والے ادارے 'سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی‘ کے مطابق بھارت میں 17 ملین افراد، جن میں سے نصف خواتین ہیں، ملازمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملک کی حوصلہ شکن معاشی صورت حال کے باعث وہ ملازمت کی تلاش پر توجہ نہیں دے پا رہے۔


تعلیم اب روزگار کی ضمانت نہیں رہی اور اس کے ساتھ صاحب روزگار شہری بھی ملازمت کے عدم تحفظ اور طے شدہ کم از کم اجرت سے بھی کم تنخواہ ملنے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس صورت حال میں چکرورتی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زیادہ تر نئی ملازمتوں کے لیے انتہائی ہنرمند افراد درکار ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہنرمند کارکنوں کی کمی کی وجہ سے بھارت بہتری کے امکانات سے فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔ چکرورتی کا کہنا تھا، ''بھارتی نوجوان غیر متناسب طور پر بے روزگاری کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور آنے والے برسوں میں اس پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘


عمر رسیدہ آبادی، فلاحی نظام پر ممکنہ بوجھ

بڑھتی ہوئی مجموعی آبادی کے ساتھ بھارت میں عمر رسیدہ آبادی (60 برس سے زائد) میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی شماریاتی ادارے کے مطابق آئندہ ایک دہائی کے دوران عمر رسیدہ شہریوں کی تعداد موجودہ 138 ملین سے بڑھ کر 194 ملین تک پہنچ جائے گی۔ خدشہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں 41 فیصد ممکنہ اضافے سے ملکی عوامی بہبود کے نظام پر بوجھ بھی بہت بڑھ جائے گا۔

صحت عامہ کے ماہر جیکب جان نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت میں صحت کے نظام ابتر ہے اور اسی لیے اس شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایک دہائی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔


جیکب جان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سماجی اور اقتصادی سرمایہ کاری درست طریقے سے کی جائے، صحت، تعلیم اور طرز حکمرانی کے لیے پالیسیاں ترتیب دی جائیں تو بھارت آئندہ برسوں میں لیبر فورس میں زیادہ لوگوں کو شامل کر کے اقتصادی ترقی میں بہتری لا سکتا ہے، ''تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہم بعد میں اس سے مستفید ہو سکیں؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔