وہ برطانوی بادشاہ جو حقیقت میں ’ملکائیں‘ تھے

برطانوی پارلیمنٹ کی ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ کچھ برطانوی بادشاہ عملی طور پر ہم جنس پرست تھے۔ اسی ریسرچ میں کئی اصلاحات پسند اراکین پارلیمنٹ کے بھی ہم جنس پسندی کے میلان کا پتہ چلا ہے۔

وہ برطانوی بادشاہ جو حقیقت میں ’ملکائیں‘ تھے
وہ برطانوی بادشاہ جو حقیقت میں ’ملکائیں‘ تھے
user

ڈی. ڈبلیو

برطانوی پارلیمان نے رواں برس فروری کے مہینے کو ہم جنس پسندی کی تاریخ کے لیے منسوب کر رکھا ہے۔ اس مناسبت سے لندن میں واقع پارلیمنٹ کی سیاحت کرنے والوں کو اراکین پارلیمان اور شاہی خاندان کے بعض افراد کی پوشیدہ زندگی کے بارے بتایا جاتا ہے کہ کون سے مرد اور خواتین ہم جنس پرست تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ترجمان کے مطابق ایک کثیر تعداد میں سیاح اراکین پارلیمان اور شاہی خاندان کے افراد کے ہم جنس پسند ہونے کی معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ نے اس مقصد کے لیے طلب کے نتیجے میں سیاحتی ٹورز میں اضافہ کر دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ہم جنس پسندی کے حوالے سے ایک مہینے کو مختص کرنا اب پارلیمانی کیلینڈر میں شامل کر دیا گیا ہے۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ برطانوی پارلیمنٹ میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ اراکین ہم جنس پسند (ایل جی بی ٹی) ہیں۔ یہ دنیا کی تمام پارلیمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ کے پینتالیس اراکین ہم جنسیت کا میلان رکھتے ہیں اور یہ کل اراکین کا سات فیصد ہے۔

پارلیمان کا سیاحتی دورہ کرانے والے ایک گائیڈ رالف اسپینسر نے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ اس معلوماتی دورے میں سیاحوں کو ہم جنس پسند بادشاہوں اور ملکاؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور حقیقت میں بعض بادشاہ ملکاؤں جیسے تھے۔ ویسٹ منسٹر ہال کی تعمیر سن 1097 کے لگ بھگ ہوئی تھی اور اس کو تعمیر کرنے والا ایک گے یا ہم جنس پسند مرد تھا۔ ویسٹ منسٹر ہال پارلیمنٹ کا وہ حصہ ہے جس میں دونوں ایوان شامل ہیں۔ ان میں ایک ہاؤس آف لارڈز یا دارالامرا اور دوسرا ہاؤس آف کامنز یا دارالعوام کہلاتا ہے۔


رالف اسپینسر نے بتایا کہ برطانوی بادشاہ ولیم ثانی کے تیسرے بیٹے ولیم فاتح کے دور میں پس پردہ ہر قسم کے معاملات طے کیے جاتے تھے۔ اسی طرح سن 1087 سے گیارہ سو تک حکمرانی کرنے والے بادشاہ ولیم روفوس اپنے سرخ بالوں کی وجہ سے مشہور تھا، اس نے اپنے ہم جنس پسندی کے شوق کی تکمیل کے لیے مردوں کا ایک گروہ درباری حرم میں جمع کر رکھا تھا۔

تاریخی روایت کے مطابق سن 1215 کی برطانوی پارلیمنٹ سے پہلے اور بعد میں آنے والے کئی بادشاہوں اور ملکاؤں کو ہم جنس پسندی کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں خاص طور پر ایڈورڈ دوم کو ہم جنس پسندوں کے مخالف مؤرخین کے مطابق رسوائی حاصل ہوئی تھی۔ ایڈورڈ دوم برطانوی تخت پر بیس برس تک براجمان رہے تھے۔ رالف اسپینسر کے مطابق وہ ایک 'پلے بوائے‘ قسم کا بادشاہ تھا۔ اس کے اپنے درباری پیئرز گیوسٹون کے ساتھ تعلقات عام تھے۔


اسپینسر نے ایک اور تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ایک مشہور برطانوی بادشاہ رچرڈ شیردل کے لقب سے مشہور ہیں۔ درباری روایتوں کے مطابق وہ فرانسیسی بادشاہ کے ساتھ ہم جنس پسندانہ تعلقات رکھتے تھے۔ ایک ملکہ این پر بھی سارہ چرچل نامی خاتون کے ساتھ ہم جنس پسندانہ تعلقات کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ملکہ این پر مشہور فلم 'دی فیورٹ‘ بنائی گئی تھی۔ اس فلم کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ملکہ این کا کردار اداکارہ اولیویا کولمین نے ادا کیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے دور میں ہم جنس پسندی سے متعلق پارلیمنٹ نے کئی اصلاحاتی مسودہٴ قوانین کو منظور کر کے انہیں قانون کی شکل دی۔ برطانیہ کی کیل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈومنیک جینز کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی معاشرے میں برداشت بہت زیادہ ہے اور اس کا واضح ثبوت ایڈز مرض سے پیدا ہونے والے بحرانی دور میں دیکھا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔