ایران: حجاب تنازعے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری

ایران کے ایک قانون ساز نے یہ بات ایسے وقت کہی ہے، جب حکومت نے مہسا امینی کی موت پر احتجاج کے خلاف اپنا رویہ مزید سخت کر دیا ہے۔ مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایران: حجاب تنازعے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری
ایران: حجاب تنازعے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری
user

Dw

ایران کے ایک قانون ساز نے مہسا امینی کی موت کے خلاف برہنہ سر احتجاج کرنے والی خواتین کو ''فسادی'' قرار دیا اور کہا ہے جو ایسا کر رہی ہیں، وہ ''خود کی جسم فروشی کے لیے نکلی ہیں۔''

تہران سے تعلق رکھنے والے قانون ساز محمود نباویان نے یہ تبصرہ ایک ایسے وقت کیا، جب مہسا امینی کی موت کے بعد جاری مظاہروں کے خلاف حکام کا رویہ مزید سخت ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ 22 سالہ مہسا امینی کی موت پولیس کی حراست کے دوران ہو گئی تھی، جس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔


قانون ساز نباوین نے کہا کہ حجاب نہ کرنا، یا سر سے اسکارف اتارنا، عوام میں برہنہ ہونے کے مترادف ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے بھی اسی طرح کے ایک بیان میں مظاہرین کو ''منافق، فسادی، ٹھگ اور فتنہ پرست'' قرار دیا۔

نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کا 16 ستمبر کو اس وقت انتقال ہو گیا تھا جب ملک کی اخلاقی پولیس نے انہیں حجاب سے متعلق سخت قوانین کی مبینہ نافرمانی کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ ان کی موت کے بعد سے ہی خواتین کی قیادت میں مظاہرے پورے ایران میں پھیل چکے ہیں۔ اس دوران بعض خواتین مظاہرین نے ریلیوں میں بطور احتجاج اپنے حجاب اتار کر جلا دیے، جبکہ کچھ نے اپنے بال بھی کاٹ دیے۔


ایران بھر میں مظاہرے

منگل کے روز بھی ایران کے درجنوں شہروں میں زبردست مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور فسادات سے نمٹنے والی پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مظاہرین کے ساتھ بیشتر مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اطلاعات کے مطابق مظاہروں میں نرمی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ایران کی نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق امینی کی موت کے بعد سے اب تک ''تقریباً 60'' لوگ مارے جا چکے ہیں۔ تاہم اوسلو میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کے مطابق کریک ڈاؤن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب تک 76سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔


ایرانی حکام نے پیر کے روز بتایا تھا کہ انہوں نے 1,200 سے زیادہ گرفتاریاں کی ہیں۔ حراست میں لیے گئے افراد میں کارکن، وکلا اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ مظاہرین بھی شامل ہیں۔ ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری مغدام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس حقیقت کے باوجود کہ حکام مظاہرین پر گولیاں چلا رہے ہیں... مظاہرے جاری ہیں۔ ہمیں ایسی کوئی علامت بھی نظر نہیں آ رہی ہے کہ لوگ گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔''

انہوں نے کہا کہ ''وہ لوگ (ایرانی عوام) ایک عام زندگی گزارنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے۔ تاہم میں نے اتنے غصے میں لوگوں کو کبھی نہیں دیکھا۔ آپ جانتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ واضح طور پر اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے۔''


ادھر ملک کی انتہائی قدامت پسند حکومت کے حامی ایک طاقتور شیعہ عالم نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ نرم رویہ اختیار کریں۔ آیت اللہ حسین نوری ہمدانی نے کہا کہ ''قائدین کو عوام کے مطالبات سننے، ان کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق کے تئیں حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔''

عالمی سطح پر مذمت

ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بعض حصوں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ آسٹریا میں ایران اور سینیگال کے درمیان ہونے والے بین الاقوامی میچ سے عین قبل تقریبا 100 افراد نے اسٹیڈیم کے سامنے احتجاج کیا جبکہ میچ بند دروازوں کے اندر کھیلا گیا۔


اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شامداسانی نے ایران کے مذہبی حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ''آزادی رائے، اظہار رائے، پرامن اجتماع اور انجمن جیسے حقوق کا مکمل احترام کریں۔'' گزشتہ ہفتے امریکہ نے ایران کی اخلاقی پولیس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں جبکہ جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بھی ایران پر نئی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ نے پیر کے روز کہا تھا، ''اس حوالے سے اب ہمیں یورپی یونین کے حلقوں میں مزید پابندیوں کے بارے میں بہت تیزی سے بات کرنی ہو گی۔ میرے خیال سے اس کے لیے جو ذمہ دار ہیں ان کے خلاف بھی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔'' ادھر تہران کا الزام ہے کہ ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لیے امریکہ اور بعض یورپی ممالک اس بدامنی کا استعمال کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔