عالمی یومِ گوریّا: گوریّوں کی آواز سننے کو ترس رہے ہیں کان

شہرکاری، عالیشان عمارتوں کی تعمیر اور سڑک بنانے کی دھُن ہم پر اس طرح طاری ہے کہ اپنی دس ہزار سال پرانی دوست ’گوریّا‘ کی بقا کا خیال ہی نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

چند برس پہلے کی بات ہے، اہل خانہ کے ساتھ میرا چنڈی گڑھ جانا ہوا۔ بالکل پرسکون شہر۔ سفر کی تھکان رات میں نیند بن کر پسر گئی۔ اچانک ایک شور سے آنکھ کھلی تو دیکھا کہ باہر آم کے درخت پر کئی چھوٹی چھوٹی چڑیائیں پرجوش انداز میں صبح کا استقبال کر رہی تھیں۔ ابھی تو بس صبح کے پانچ ہی بجے تھے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ سن کر اچانک بچپن کی یاد تازہ ہو گئی جب میرے پانا اسی طرح کے شور کے ساتھ جگاتے تھے، ’’اٹھ جاؤ بھائی، صبح ہو گئی ہے۔ دیکھو کیسے چڑیائیں چہچہاتے ہوئے تمھیں اٹھا رہی ہیں، چلو اب اٹھ جاؤ۔‘‘ اور پھر ہم کسمساتے ہوئے اپنی چادر سر تک تان لیتے تھے۔

آج صبح جاگنے کے لیے اس میٹرو پولیٹن سٹی میں گھڑی کے الارم کی ضرورت پڑتی ہے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ہوتی ضروری ہے لیکن مدھم آواز میں۔ اتنی مدھم کہ بغور نہ سنیں تو سنائی بھی نہیں دیتی ہیں۔ سنائی دیتی ہیں تو صرف گاڑیوں کا شور، ہارن کی تلخ آواز، مندر میں بجتی عجیب سی موسیقی یا پھر مسجد کی اذان۔ کبھی کبھی اس احساس پر حیرت ہوتی ہے کہ جو چڑیائیں زندگی کا اتنا اہم حصہ تھیں کہ اکثر پھدکتے ہوئے گھر کے اندر آ جاتی تھیں اور جن کے گھونسلوں سے گرتے گھاس کے خشک تنکوں کو بٹورتے ہوئے ماں غصے میں بڑبڑاتی رہتی تھیں، آخر وہ سب کہاں گم ہو گئیں!

لگاتار بڑھتے شہروں، عظیم الشان عمارتوں اور سڑکوں کو بنانے کی دھن ہماری ’ترقی‘ کی سوچ کا اتنا ضروری حصہ بن گئی ہے کہ ہم اپنے دس ہزار سال پرانی دوست اس چھوٹی سی چڑیا یعنی ’گوریا‘ کو بھول ہی گئے۔ پانی اور ہوا اس قدر زہریلے ہو گئے ہیں کہ انسان کے لیے ہی سانس لینا مشکل ہے تو چڑیوں کی کیا بات کی جائے۔

رہنے کے لیے آسمان چھوتی عمارتیں ہیں اور ان کے آس پاس خوبصورتی کے لیے لگائے گئے چند درخت، ان درختوں پر بھی چڑیائیں نہیں رہ پاتیں کیونکہ ہم نے ان کے گھونسلے کے لیے نہ جگہ چھوڑی ہے اور نہ ہی گھاس۔ گھونسلہ بنا بھی لیں تو دانہ پانی کہاں سے لائیں گی؟ عمارتوں کا جانور تو کبوتر ہوتا ہے۔ اسے گھونسلے کی ضرورت نہیں۔ شہرکاری کی اندھی دوڑ سے پہلے چڑیوں کو کسان کا سب سے اچھا دوست سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ کھیت کے سبھی کیڑوں کو کھا لیتی تھیں اور اس طرح کھیت فصل کی بوائی اور کٹائی سے پہلے ہی قدرتی طور سے صاف ہو جایا کرتا تھا۔

برطانیہ میں آئے صنعتی انقلاب کے دوران پہلی بار چڑیوں کی تعداد میں زبردست کمی درج کی گئی تھی۔ پھر چین میں 1958 میں ’پیسٹیسائیڈ مہم‘ چلائی گئی جن کے سبب لاکھوں چڑیائیں ہلاک ہو گئیں۔ چین کو احساس ہوا کہ چڑیائیں اناج اتنا نہیں کھاتیں جتنا کہ کیڑے کھا کر وہ ایکو سسٹم کو بنائے رکھتی ہیں۔ لیکن تب تک اتنا نقصان ہو چکا تھا جس کا ازالہ آج تک نہیں ہوا پایا۔

چند برس پہلے دہلی کی اس وقت کی حکومت نے بھی چڑیوں کی کمی پر فکر کا اظہار کرتے ہوئے کچھ قدم اٹھائے تھے اور چڑیوں کی تعداد میں ایک بار اضافہ بھی ہوا تھا، لیکن آج حالات پھر ویسے ہی ہو گئے ہیں۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ آپ کو ایک موبائل فون کی رِنگ ٹون کی شکل میں تو سنائی دے جائیں گی لیکن ایک حقیقی چڑیا کی آواز سننا اتنا آسان نہیں۔

ترقی اور تعمیرات کی ہوس نے ہماری بستیوں کو صرف شور مچاتی ٹٹہریوں اور آسمان میں منڈلاتے چیلوں کا بسیرا بنا دیا ہے۔ اب تو چڑیوں کی چہچہاہٹ ہی نہیں بلکہ کوئل کے گیت اور مور کی آواز سنائی دینی بھی بہت دور کی بات ٹھہری۔ اب اپنے بچوں کو چڑیوں سے تعارف کراتے وقت شاید صرف تصویروں کا ہی سہارا لیا جا سکے گا۔ سال میں ایک بار ’اسپیرو ڈے‘ منا کر ہم اپنے احساسِ جرم سے تو آزادی حاصل کر سکتے ہیں لیکن انسانی گھمنڈ سے نہیں۔ لگاتار قدرتی آفات برداشت کرتے ہوئے بھی اس بات کا احساس آج تک نہیں ہو پایا ہے کہ قدرت ہم سے نہیں ہے بلکہ ہم قدرت سے ہیں۔ اگر ہم چڑیوں کو واپس بلانے کے لیے کوئی اقدام کریں گے تو یہ ہمارے ہی مفاد میں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */