نربھیا کیس: 16 دسمبر 2012 کی وہ سیاہ رات جب درندگی کی انتہا ہوئی

16 دسمبر 2012 ملک کی تاریخ میں یومِ سیاہ کی شکل میں یاد کیا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو سرد رات کے دوران چلتی بس میں 5 درندوں نے 23 سالہ نربھیا کے ساتھ حوانیت کا جو کھیل کھیلا وہ کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

نربھیا پیرا میڈیکل کی طالبہ تھی اور 16 دسمبر 2012 کو فلم دیکھنے کے بعد اپنے ایک دوست کے ساتھ بس میں سوار ہو کر منریکا سے دوارکا جا رہی تھی۔ بس میں نربھیا اور اس کے دوست کے علاوہ 6 دیگر لوگ بھی تھے۔ ان 6 لوگوں نے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ نربھیا کے دوست نے جب روکنا چاہا تو انھیں پیٹ پیٹ کر بیہوش کر دیا گیا اور پھر ان بھیڑیوں نے چلتی بس میں درندگی کی ساری حدیں پار کر دیں۔ بعد میں ان شیطانوں نے نربھیا اور اس کے ساتھی کو جنوبی دہلی کے مہیپال پور کے نزدیک وسنت وِہار علاقے میں چلتی بس سے پھینک دیا گیا تھا۔

نصف رات کے بعد کسی نے پولس کو ان دونوں کے وہاں پڑے ہونے کی اطلاع دی۔ پولس نے دونوں کو نازک حالت میں دہلی کے صفدر جنگ میں داخل کرایا۔ معاملہ سرخیوں میں آیا اور درندگی کی جانکاری ملنے پر پورا ملک غصے میں تلملا اٹھا۔ جانچ شروع ہوئی اور چار ملزمین پولس کے ہاتھ آئے۔ پولس نے دو دن بعد دعویٰ کیا کہ بس ڈرائیور رام سنگھ نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ اس کی نشاندہی پر پولس نے اس کے بھائی مکیش، ایک جم انسٹرکٹر ونے گپتا اور پھل فروش پون گپتا کو گرفتار کیا۔ ایک طرف پولس سبھی ملزمین سے لگاتار پوچھ تاچھ کر رہی تھی، اور دوسری طرف پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے تھے۔ لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ پورے ملک کی نگاہیں صرف دہلی پولس کی جانچ اور کارروائی پر لگی ہوئی تھی۔

18 دسمبر 2012 کو ہی اس معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی پڑنے لگی تھی جہاں ممبران پارلیمنٹ نے ملزمین کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا تھا کہ راجدھانی میں خواتین کی سیکورٹی کے لیے سبھی ضروری اقدام کیے جائیں گے۔ اس درمیان نربھیا کی حالت نازک ہوتی جا رہی تھی۔ اسے ونٹلیٹر پر رکھا گیا تھا۔ جو آواز سڑکوں اور سوشل میڈیا سے اٹھ کر پارلیمنٹ پہنچی تھی، وہ سڑکوں پر پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے صفدر جنگ اسپتال جا کر متاثرہ لڑکی کا حال چال جانا تھا۔ نربھیا کی حالت سنبھل نہیں رہی تھی، اسے علاج کے لیے سنگاپور کے ماؤنٹ ایلزبتھ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ 29 دسمبر کو نربھیا نے رات کے تقریباً سوا دو بجے دَم توڑ دیا تھا۔

معاملہ عدالت پہنچا۔ اس میں 80 لوگوں کو گواہ بنایا گیا تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران 11 مارچ 2013 کو ملزم بس ڈرائیور رام سنگھ نے تہاڑ جیل میں خودکشی کر لی۔ حالانکہ رام سنگھ کے گھر والوں اور اس کے وکیل نے الزام عائد کیا تھا کہ جیل میں اس کا قتل کیا گیا تھا۔

اس شرمناک جرم میں ایک نابالغ بھی شامل تھا۔ اسے قصوروار ٹھہرا کر عدالت نے تین سال کے لیے بچوں کی اصلاح کے لیے بنے گھر میں بھیج دیا تھا جہاں سے 20 دسمبر 2015 کو عدالت نے اسے ضمانت پر رِہا کر دیا۔ ساتھ ہی اسے سخت سیکورٹی کے درمیان ایک غیر سرکاری ادارہ کی دیکھ ریکھ میں رہنے کی ہدایت دی گئی۔ نربھیا واقعہ کے بعد قانون تک میں تبدیلی کی گئی۔

فاسٹ ٹریک عدالت نے 10 ستمبر 2013 کو چاروں بالغ ملزمین کو قصوروار قرار دیا اور 13 ستمبر 2013 کو انھیں موت کی سزا سنائی۔ ملزمین نے فاسٹ ٹریک عدالت کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 3 جنوری 2014 کو فیصلہ محفوظ رکھا اور 13 مارچ 2014 کو ذیلی عدالت کے ذریعہ چاروں بالغ ملزمین کو سنائی گئی موت کی سزا پر مہر لگا دی۔ بعد ازاں ملزمین نے سپریم کورٹ میں موت کی سزا کو چیلنج پیش کیا۔ سپریم کورٹ نے 27 مارچ 2017 کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ سپریم کورٹ نے 5 مئی کو وہ تاریخی فیصلہ دیا جس کا پورے ملک کو انتظار تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی چاروں بالغ ملزمین کی موت کی سزا کو قائم رکھا۔

اس کے بعد تین ملزمین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر از سر نوغور کرنے کی عرضی داخل کی۔ اس عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد مئی مہینے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا جس کو آج یعنی 9 جولائی 2018 کو سنایا گیا۔ فیصلہ میں قصورواروں کی موت کی سزا برقرار رکھتے ہوئے از سر نو غور کرنے والی عرضی کو خارج کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔