’میں ہندو ہوں، اور میں کانوڑیوں کی ’شرارت‘ کے سخت خلاف ہوں...‘

ہندو مذہب میں بلاشبہ تیرتھ یاتراؤں کی بڑی اہمیت ہے لیکن کیا ایک بڑی سی گاڑی میں تیزی موسیقی بجاتے ہوئے مذہبی یاتراؤں میں جانا چاہیے؟ کیا ان یاتراؤں میں ہر طرح کی سہولیات کا مزہ لینا جائز ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

اب چونکہ ملک میں ہندوتوادی حکومت ہے اس لیے یہ سوال اب زیادہ زور سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا مذہبی ہندو ہونا مردانگی اور انا کی علامت ہے جس میں ذرا سی بات پر تشدد برپا کر دی جائے؟

جب بھی ساون کا مہینہ آتا ہے تو اسکول جانے والا میرا نوجوان بیٹا ان تین دنوں کی چھٹی کا انتظار کرتا ہے جو کانوڑیوں کو راستہ دینے کے لیے کر دی جاتی ہیں۔ کسی بھی دوسرے نوجوان کی طرح اسے بھی اسکول جانا زیادہ اچھا نہیں لگتا، لیکن ان چھٹیوں کو لے کر اس کا نظریہ الگ ہے۔ وہ کہتا ہے ’’کون اس ساری بکواس، گندگی اور کانوڑیوں کے اجڈپن سے الجھے گا؟ میں تو خود اپنی ممی، ٹیچر اور دوستوں کو بھی اس سب میں ہرگز نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘

والدین کے طور پر ہمارے لیے اسے یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ یہ ایک مذہبی یاترا ہے جسے بھگوان شیو کے لاکھوں بھکت ہر سال نکالتے ہیں۔ لیکن کسی بھی دانشور کی طرح وہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ کوئی بھی مذہبی یاترا اتنی اجڈ، غیر اخلاقی اور گڑبڑ کرنے والی ہو سکتی ہے۔

ہندو مذہب میں یقیناً تیرتھ یاتراؤں کی بڑی اہمیت ہے لیکن کیا ایک بڑی سی گاڑی میں تیز موسیقی بجاتے ہوئے مذہبی یاتراؤں کو جانا چاہیے؟ کیا ان یاتراؤں میں ان سبھی سہولیات کا مزہ لینا جائز ہے جو ہمارے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے کیمپوں میں دستیاب کائی جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں...۔

میں ایک ہندو ہوں، اور مجھے معلوم ہے کہ مذہبی یاتراؤں پر بغیر کسی دھوم دھام اور شور شرابے کے سادگی کے ساتھ نکلا جاتا ہے، کیونکہ مذہبی یاترائیں ہماری روحانیت کے باہری مظاہرہ کے لیے نہیں ہوتیں۔ اس بار کی کانوڑ یاترا کے دوران ہمارے کچھ ساتھیوں اور جاننے والوں نے کانوڑ یاترا کے اپنے تجربات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انھوں نے ننگے پاؤں بغیر رکے وہ خود اس یاترا پر نکلے تھے۔ ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے اور پوری یاترا کے دوران بھوک پیاس سے بھی حالت خراب ہو گئی تھی۔

میں اپنی کہوں تو میں تو ایسی یاتراؤں کے سخت خلاف ہوں، صرف اس وجہ سے کہ اس سے ہماری روحانی ترقی یا مذہبی فروغ نہیں ہوتا لیکن ہاں، ہمارے صبر کا ضرور امتحان ہوتا ہے۔ لیکن مذہب کے نام پر تو ہم جانے کیا کیا کرتے ہیں۔ اور میں تو عقیدت اور بھروسہ کو مانتی ہی ہوں۔ لیکن کانوڑیے اپنے صبر کا امتحان نہیں لیتے، اپنے یقین کا امتحان نہیں لیتے، وہ آپ کے یقین اور صبر کا امتحان لیتے ہیں۔

ذرا غور فرمائیے... آپ گھر سے جلدی دفتر پہنچنے کے لیے نکلتے ہیں اور خوش ہیں کہ حال ہی میں وزیر اعظم نے نئے نویلے ایکسپریس وے کا افتتاح کر راستہ آسان کر دیا ہے، اور آپ فراٹے بھرتے ہوئے دفتر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ گھر سے نکلتے ہی آپ جام میں پھنس جاتے ہیں، کیوں؟ صرف اس لیے کیونکہ اجڈ اور گنوار کانوڑیوں کی فوج آپ کو آگے جانے ہی نہیں دے رہی۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں، بھگوا کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ساتھ ہی ترنگا اور بھگوا پرچم ایک ساتھ لیے اچانک چلتے ٹریفک کے درمیان کود کر آپ کو آگے جانے سے روک دیتے ہیں۔ روکنے کے لیے وہ باقاعدہ آپ کی گاڑی پر دھپ دھپ کرتے ہیں۔ اور آپ شکر مناتے ہیں کہ انھوں نے صرف ہاتھ ہی استعمال کیے، دوسرے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا استعمال نہیں کیا۔ اور اب تو انھوں نے ہندوتو میں راشٹرواد کا تڑکا لگا کر اس یاترا کو مزید خطرناک اور شورش پسند بنا دیا ہے۔

ایک اور مثال دیکھیں... آپ کے سر میں کسی وجہ سے درد ہو رہا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ سکون سے کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔ تبھی اچانک ایک شور آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ شور کچھ اور نہیں، اس بھجن کی آواز ہے جو آپ کی رہائشی سوسائٹی کے سامنے سے گزرتے مذہبی جلوس میں بجایا جا رہا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ کسی طرح جلد سے جلد یہ بھیڑ وہاں سے گزر جائے۔ لیکن نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بھولے شنکر کی فوج ہے اور موج کرنا اس کا حق ہے۔ انھیں تانڈو کرنا ہے اور بھوت، پشاچ، راکشش یا وہ سب کچھ جس کے تصور سے ہی آپ ڈر جاتے ہیں، ان کی طرح شور مچانا ہے۔

اب ذرا اس پر دھیان دیں... آپ کسی لال بتی پر رکے ہوئے ہیں اور سڑک پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ تبھی بائک پر سوار ان شیو بھکتوں کی فوج آپ کے پاس سے بھدی بھدی باتیں کہتی گزر جائے گی، اور آپ بھنبھناتے ہوئے سر پٹختے رہ جائیں گے۔

کیا ان کے ایسے اعمال کا مزید شمار کرانے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر شنکر کی فوج کی موج مناتی سینکڑوں تصویریں اور ویڈیو اِدھر سے اُدھر ہو ہی رہی ہیں۔ کسی میں یہ ڈنڈوں سے کاریں توڑ رہے ہیں، کسی میں راہ چلتے لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں، کسی میں چلم کے دھوئیں اڑا رہے ہیں تو کسی میں شراب نوشی چل رہی ہے۔ اور یہ سب برسرعام، بلاجھجک اور بغیر کسی شرم یا جھجک کے ہو رہا ہے۔

اتنا ہی کافی نہیں تھا کہ ایک ویڈیو میں اجڈ اور غنڈوں کی ٹولی پر اتر پردیش کے بڑے پولس والے پشپ ورشا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو سے ایک بات تو صاف ہو گئی کہ ان کانوڑیوں پر حکومت کا ہاتھ ہے۔ دہلی پولس کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن بھی یہی اشارہ دیتی ہے کہ حکومتیں ان کے ساتھ ہیں۔

اگر یو پی کے بلند شہر میں ہوئے واقعہ کو ہی دیکھیں تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی سہارے نے ان لوگوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دہلی میں کار کو تہس نہس کرنے کے ویڈیو کے بعد ہی بلند شہر کا بھی ایک ویڈیو سامنے آیا جس میں نظر آ رہا ہے کہ کس طرح کانوڑیے ایک پولس گاڑی پر حملہ کر رہے ہیں۔

کچھ سوال اٹھانا بالکل جائز ہے کہ ہمارے جیسے جمہوری ملک میں آخر حکومت اس غنڈہ گردی کی اجازت کیسے دے دیتی ہے جس میں عام لوگوں کی نہ صرف عزت اتاری جاتی ہے بلکہ ان کے بنیادی آئینی حقوق کو بھی کچل دیا جاتا ہے؟ کیا یہ کانوڑیے اس مذہبی یاترا کی اصل اہمیت سمجھتے بھی ہیں یا یہ محض بے روزگار اور چور اُچکّوں کی جماعت ہیں جو صرف مفت کا کھانا اور سستی سنسنی کے لیے موج منانے نکل پڑتی ہیں؟ کیا یہ ہندو مذہب کا عروج ہے یا پھر ہندو مذہب کے زوال کی نئی عبارت؟ کیا وہ اصل میں بھگوان شیو یا رام کے آدرشوں کو سمجھتے ہیں؟

اور پھر، وہ سب کہاں ہیں جو گڑگاؤں میں سڑک پر نماز پڑھنے کی مخالفت میں اتر آئے تھے؟ اور جب ہمیں نظر آ رہا ہے کہ کس طرح غنڈے موالی ہندو مذہب کا کھلے عام غلط استعمال کر رہے ہیں، ہر قاعدے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، تو کیا ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا؟

کچھ سالوں سے ہندو مذہب کی تجارت نے مذہب کو گڈھے میں پہنچانے کا کام کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اوٹ پٹانگ بھجنوں پر لوگ ہنستے تھے لیکن اب خاموشی سے جھیل لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب بھگوا امن اور ہجر کی علامت تھا اور اب خوفزدہ کرنے لگا ہے۔ امن اورمحبت کے مجسمہ بھگوان شنکر اور رام جارحیت کی علامت بن گئے ہیں۔ جس طرح برسراقتدار سیاسی پارٹی یہ سب ہونے دے رہی ہیں اور ہندو مذہب کے نظریات کو ہی ختم کر رہی ہیں، وہ شرمناک ہے۔

لیکن معاف کیجیے گا، میں بھی ایک ہندو ہوں اور اچھی طرح جانتی ہوں کہ کانوڑیوں کی شرارت اور بدمعاشی میرے مذہب کا حصہ نہیں ہے۔ ایک سچا ہندو کبھی بھی ان کی ان یاتراؤں کا حصہ نہیں بننا چاہے گا۔ میں ہندو ہوں، ایک عورت ہوں، اور میں ان شرارتی کانوڑیوں کے سخت خلاف ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Aug 2018, 9:57 PM