کورونا وائرس تو ہر جگہ پہنچ گیا، لیکن سائنس کہاں تک پہنچی؟

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد چھیالیس لاکھ جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس دوران سائنسی پیش رفت کتنی ہوئی؟

کورونا وائرس تو ہر جگہ پہنچ گیا، لیکن سائنس کہاں تک پہنچی؟
کورونا وائرس تو ہر جگہ پہنچ گیا، لیکن سائنس کہاں تک پہنچی؟
user

ڈی. ڈبلیو

کورونا وائرس خطرناک حد تک تیز رفتاری سے دنیا بھر میں مزید پھیلتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ اس دوران سائنس دان ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہیں۔ جس تیز رفتاری سے یہ وائرس پھیل رہا ہے، اسی تیز رفتاری یا شاید اس سے بھی زیادہ برق رفتاری سے سائنسی تجربہ گاہوں میں تحقیق بھی کی جا رہی ہے۔ کہیں اس وائرس کی ماہیت پیش نظر ہے، کہیں ویکسین کی تیاری زیرغور ہے، کہیں وائرس کے نقصان کو کم کرنے پر توجہ مرکوز ہے تو کہیں پہلے سے موجود ادویات کے ذریعے اس وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں کمی پر تحقیق ہو رہی ہے۔

زکام اور کووِڈ انیس کا موازنہ


آپ نے کئی بار یہ جملہ سنا ہو گا کہ کورونا وائرس سے بھی زکام ہی کی طرح کی ایک بیماری لگتی ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکا کے متعدی بیماریوں کے انسداد کے محکمے کی جانب سے ایسے اعداد و شمار جاری کیے گئے تھے، جن میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاکتوں اور عام زکام کی وجہ سے پیش آنے والی پیچیدگی کی وجہ سے ہلاکتوں کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد اصل ہے جب کہ زکام سے متاثرہ مریضوں کی تعداد فقط ایک اندازہ ہے۔ اس لیے ان دونوں کا موازنہ نادرست عمل ہے۔

کولیسٹرول کم کرنے والی دوا معمر افراد کے لیے موزوں


ایک تازہ سائنسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے والی سٹیٹن ادویات ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے متاثرہ معمر مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔

نئی سائنسی تحقیق میں کہا گیا ہےکہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح کم کرنے کے لیے استعمال ہونے والی سٹیٹن نامی دوائیں واضح طور پر معمر افراد میں سانس کی بیماری پیدا ہونے سے روکتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو نرسنگ ہاؤسز کے کورونا وائرس سے متاثرہ ایک سو چون معمر افراد کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا۔ تاہم اس سائنسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔


کووِڈ انیس فقط سانس کی بیماری نہیں

ایک اور تازہ سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری کووِڈ انیس کو اب تک نظام تنفس کی مخصوص بیماری سمجھا جا رہا ہے، مگر یہ بیماری حقیقت میں صرف پھیپھڑوں تک ہی محدود نہیں رہتی۔ میڈیکل جرنل 'کِڈنی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں نیویارک ہیلتھ سسٹم سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے تناظر میں بتایا گیا ہے کہ کووِڈ انیس میں مبتلا بالغ افراد میں سے ایک تہائی سے زائد ایسے تھے، جنہیں گردوں میں شدید انفیکشن کا مسئلہ درپیش تھا۔


نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں بھی کہا گیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے 27 افراد کا پوسٹ مارٹم کیا گیا، تو ان میں سے 13 کے گردوں، 17 کے دل، 17 کے جگر اور آٹھ کے دماغ کے ٹشوز پر یہ وائرس پایا گیا۔

سائنسی رپورٹوں میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ وائرس جسم میں خون کے لوتھڑے بن جانے کی وجہ بھی بن رہا ہے اور کئی اموات شریانوں میں خون جم جانے سے بھی ہوئی ہیں۔


کورونا وائرس کو شکست دینے والوں کا پلازمہ اتنا بھی مددگار نہیں

دنیا بھر کے محققین اس وقت اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ آیا کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد کے خون سے حاصل کردہ پلازمہ نئے مریضوں کے لیے مددگار ہے یا نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ پلازمہ کا ایک فرد سے دوسرے فرد میں انتقال محفوظ ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ آیا یہ کورونا وائرس کے خلاف کوئی مدد دیتا ہے یا نہیں۔ مئی کے وسط میں medRxiv جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 19 مریضوں میں پلازمہ کی منتقلی کی گئی اور اس کے منفی اثرات نہیں دیکھے گئے۔


امریکی محکمہ برائے خوراک و ادویات نے بھی پلازمہ کی منتقلی سے انتہائی منفی اثرات کے امکانات کو ایک فیصد سے بھی کم بتایا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ پلازمہ کی منتقلی سے نئے مریضوں کو کوئی واضح فائدہ ہوا یا نہیں۔ واضح رہے کہ کوئی شخص کسی وائرس سے متاثر ہو، تو جسم کا مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کر لیتا ہے اور دوبارہ اس وائرس کے جسم میں پہنچنے پر وہ اینٹی باڈیز اس وائرس کو باآسانی ختم کر دیتی ہیں۔ تاہم کورونا وائرس میں میوٹیشن یا خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اتنی تیز رفتار ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہو پا رہا کہ یہ اینٹی باڈیز اس وائرس کے خلاف بھی کارگر ہیں یا نہیں۔

دیگر شعبوں میں بھی تحقیق


کورونا وائرس کے انسداد کے لیے جینیات کے ماہرین بھی تحقیق میں مصروف ہیں۔ یہ ماہرین غور کر رہے ہیں کہ یہ جرثومہ جینیاتی طور پر کس طرح کی ماہیت کا حامل ہے اور کون سے انسانی جینز پر اس کا اثر کس انداز کا ہے۔ اسی طرح وائرالوجسٹس مختلف کیمیائی مادوں کے اس وائرس کے افعال پر اثرات کا معائنہ بھی کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔