ایک ایسی مخلوق جو بغیر آنکھوں کے بھی دیکھ سکتی ہے!

کیریبیین اور خلیج میکسیکو میں مونگے کی چٹانوں میں بسنے والی اسٹار فش کی ایک ہم جولی کی آنکھیں نہیں ہوتیں مگر وہ دیکھ سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بصارت یا کسی چیز کا دیکھنا آنکھوں کے بغیر بھی ممکن ہے

کیا آنکھوں کے بغیر بھی دیکھا جا سکتا ہے؟
کیا آنکھوں کے بغیر بھی دیکھا جا سکتا ہے؟
user

ڈی. ڈبلیو

سائنس دانوں نے اس سمندری حیات پر اپنی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ یہ مچھلی روشنی کے احساس کی حدود کو ایک بالکل مختلف سطح پر لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دو جنوری جمعرات کے روز سائنس دانوں کی جانب سے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریڈ بریٹل اسٹار، جسے اوفیوکوما وینڈٹی کہا جاتا ہے، اب تک دریافت کی جانے والی وہ دوسری سمندری مخلوق ہے، جو بغیر آنکھوں کے بھی دیکھ سکتی ہے۔ اس سے قبل سمندری حیات 'اوچین‘ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ بغیر آنکھوں کے بھی دیکھنے کی صلاحیت کی حامل ہے۔

اس مچھلی کے پاس فوٹوسیپٹرز یعنی روشنی کو محسوس کرنے والے خلیات ہوتے ہیں اور یہ خلیات اس مخلوق کے جسم اور جلد کے کروماٹوفوریس نامی خلیات کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے دن کے وقت یہ مچھلی اپنا رنگ بھی تبدیل کر لیتی ہے، یعنی دن کے وقت یہ گہرے سرخی مائل بھورے رنگ کی ہوتی ہے، جب کہ رات کے وقت دھاری دار خاکی رنگ کی۔

بریٹل اسٹار نامی اس مچھلی کے پانچ بازو اس کے جسم کے مرکزی حصے سے جڑے ہوتے ہیں، جو اسے دیکھنے میں سمندری ستارہ مچھلی جیسا بنا دیتے ہیں۔ اس مچھلی کا دماغ نہیں ہوتا مگر ایک اعصابی نظام موجود ہوتا ہے۔

یہ مچھلی قریب چودہ انچ لمبی ہوتی ہے اور روشن مگر پیچیدہ ٹھکانوں میں بستی ہے، تاکہ مونگے کی چٹانوں میں رہنے والی دیگر بڑی مچھلیوں کا شکار ہونے سے بچ سکے۔ دن کے وقت یہ مچھلی چھپی رہتی ہے، جب کہ اس کا روشنی میں تبدیل شدہ رنگ اسے شکار ہونے سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ رات کے وقت یہ فعال ہو جاتی ہے اور سمندر میں تیرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے فاضل مادے اور چُورے جیسے مادے کھاتی ہے۔


سائنس دانوں کے مطابق اس مچھلی کے فوٹوسیپٹرز خلیات کروماٹوفوریس خلیات میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں اور اس طرح ہر فوٹوسیپٹر خلیہ کمپیوٹر اسکرین کے ایک پکسل کی طرح سے روشنی محسوس کرتا ہے، جب کے دیگر فوٹوسیپٹر خلیات کے ساتھ مجموعی طور پر ایک مکمل تصویر اس مچھلی کو محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ تصویری نظام رات کے وقت یعنی روشنی کی عدم موجودگی میں کام نہیں کرتا۔

یہ تحقیقی رپورٹ سائنسی جریدے 'کرنٹ بائیالوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس ریسرچ رپورٹ کو مرتب کرنے والی ماہرین کی ٹیم کی سربراہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کی ریسرچ فیلو لورین سمر رونی کے مطابق، ''اگر کروماٹوفوریس خلیات سے متعلق اخذ کردہ ہمارے نتائج درست ہیں، تو یہ ارتقا کی ایک خوب صورت تخلیقی مثال ہے۔‘‘

لیبارٹری میں اس مچھلی پر کیے گئے تجربات میں بریٹل اسٹار مچھلی کو روشنی کے احساس کے بنیادی اصولوں پر کارفرما دیکھا گیا۔ اس مچھلی کو جب ایک دائرہ نما جگہ پر رکھا گیا، تو یہ اس مقام کی جانب سرک گئی، جو سفید اور کالی دھاریوں کا حامل تھا۔ اس سے اس مچھلی کے دن کے وقت چھپنے کی جگہ کا تعین ہوا۔

پھر ایک اور موقع پر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ مچھلی فقط روشن اور سیاہ جگہوں کے درمیان ہی تمیز نہیں کرتی بلکہ جب اسے سرمئی دیواروں کے قریب رکھا گیا، یعنی جہاں فقط روشن یا تاریک جگہ کا معاملہ نہیں تھا، تو وہاں سے بھی یہ مچھلی سیاہ پٹیوں والی دیوار کی جانب سرک گئی، جب کہ اس جگہ سے روشنی بالکل اتنی ہی منعکس ہو رہی تھی، جتنی سرمئی جگہ سے۔


یہ بات اہم ہے کہ حیوانات بہ شمول انسانوں میں سے کسی کی بھی آنکھ بنیادی طور پر روشنی محسوس کرنے کے اسی اصول کے تحت کام کرتی ہے۔ یعنی آنکھ کے خلیات روشنی وصول کرتے ہیں اور آنکھ میں موجود قدرتی محدب عدسے کی مدد سے ریٹینا یعنی آنکھ کے پردے پر الٹی تصویر بنتی ہے، جسے دماغ سیدھا کر کے محسوس کرتا یعنی دیکھتا ہے۔ مگر بنیادی اصول روشنی وصول کر کے اس سے اجسام کی تصاویر، رنگ اور نوعیت کو محسوس کرنے کا ہی ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */