سائنس: ’ایپل‘ سے ’اپولو‘ تک... وصی حیدر

نیو ٹن اپنی تحقیقات میں کسی طرح کی کمی نہیں برتنا چاہتا تھا۔ اس نے اس سلسلہ میں ریاضی کی ایک نئی ’کیلکولس‘ ایجاد کی اور اس کو استعمال کر کے اپنے کشش کے قانون سے تمام سیاروں کے مشاہدات کو سمجھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

نیوٹن یقیناً پہلا سائنس داں نہیں تھا جس نے زمینی کشش کے بارے میں غور کیا۔ 15ویں صدی میں بھی کئی فلکیاتی دانشور اس نتیجہ پر پہنچ رہے تھے کہ ہماری زمیں اور آسمان میں دوسرے سیاروں اور سورج کے بیچ ضرور کسی طرح کی کشش کا فورس موجود ہے۔

سال 1600 میں گلبرٹ ، 1645 میں بیلارڈ نے اپنی کتاب میں 1666 میں الفونسو وریلی نے بھی نیوٹن کی کشش کی بنیادی خصوصیات کو پہچان چکے تھے۔

سیب کے گرنے کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ نیوٹن کی کشش کا قانون 1666 میں معلوم ہو چکا تھا۔ جبکہ اس سلسلہ میں رائل سوسائٹی کو پہلا مضمون 1685 میں بھیجا اور اس کی مشہور کتاب پرنسپیا کی پہلی جلد 1687 میں شائع ہوئی۔

اسی بیچ 1674 میں انگلستان ہی کا مشہور سائنس داں رابرٹ ہُک نے سورج کے گرد زمیں کے گھومنے کو کشش کے قانون کے تحت گھومنے کی وجہ پر ایک مقولہ چھاپا۔ اس نے یہ بیان کیا کہ کشش کی قوت دوری بڑھنے سے کم ہوتی ہے۔ یعنی ہک آئندہ آنے والے نیوٹن کے قانون کی بنیادی خصوصیت کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنی ان تحقیقات کی اطلاع نیو ٹن کو بھی دی جو خود بھی انہیں نتائج پر پہنچ چکا تھا۔

ہُک ایک نہایت ہی ذہین سائنس داں تھا اور اس نے سائنس کی مختلف چیزوں میں تحقیقات کی اور خاص کر الاسٹیسٹی کے قانون ہوکز لاء کی دریافت کے لئے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ اس نے مائیکرو اسکوپ کا پہلی بار استعمال کرکے جاندار اور بے جان چیزوں کے بلڈنگ بلاک یعنی ’سیل‘ کی دریافت کی۔ اس کی مشہور کتاب مائیکروگرافیا 1665میں چھپی۔ نیوٹن سے لڑائی کی وجہ سے اس کے بیش قیمتی کام کو بہت ہی کم توجہ دی گئی۔

جوہانس کیپلر نے بھی اپنی فلکیاتی تحقیقات کے دوران کشش کے قانون ’انورس اسکوئر ‘ پر غور کیا لیکن کسی وجہ سے ترک کردیا۔ نیوٹن نے 1666 میں کشش کے قانون کو معلوم کیا لیکن تقریباً 20 سال انتطار کے بعد سال 1685 میں برطانیہ کی رائل سوسائٹی کو اپنے نتیجے سے مطلع کیا۔ یہ دیری بہت ہی عجیب اور سمجھ میں نہ آنےوالی ہے۔

زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ نیو ٹن اپنی تحقیقات میں کسی طرح کی کمی نہیں برتنا چاہتا تھا۔ اس نے اس سلسلہ میں ریاضی کی ایک نئی ’کیلکولس‘ ایجاد کی اور اس کو استعمال کر کے اپنے کشش کے قانون سے تمام سیاروں کے مشاہدات کو سمجھا۔ اس کے علاوہ 1670 تک زمین ، چاند اور سورج کا وزن اور دوریوں کی زیادہ معتبر جانکاری بھی مہیا ہو پائی تھیں اور یہ نیوٹن کے قانون کی اچھی طرح جانچ کرنے کے لئے ضروری تھی۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ نیوٹن سے پہلے اور اس زمانے میں کئی اور دانشور (ہُک) کے کشش کے قانون پر غور کرہے تھے۔ لیکن ان سب کے مقابلے میں نیوٹن کی خاص طور سے ریاضی کی مہارت میں نیوٹن کا کوئی ثانی نہیں تھا اس لیے اس قانون کو نیوٹن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔

ایڈمنڈ ہیلی ایک فلکیاتی دانشور اور ماہر ریاضی داں (جس کے نام سے پہلا دُمدار تارہ ہے)۔ وہ نیوٹن اور ہُک دونوں کا دوست تھااور اس نے ان دونوں کے بیچ بہت مصالحت کی کوشش کی اور اس نے ہی نیوٹن کو پرنسپیا کے تیسرے شمارے کو چھاپنے کے لئے راضی کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

نیوٹن کا کشش کا قانون نہ صرف سیب کے گرنے، زمین اور سیاروں کا سورج کے گرد گھومنا بلکہ چاند کا زمین کے گرد گھومنا اور بڑے سیاروں کے گرد دسیوں چاندوں کے گھومنے کے تمام باریک مشاہدوں سے حیرت انگیز حد تک اتفاق کرتا ہے۔ ان بڑی کامیابیوں کی وجہ سے فزکس کی تمام تحقیقات پر نیوٹن کا بہت اثر رہا۔ ان میں سے کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل کیا گیا ہے۔

سال 1986 تک سائنسی اوزاوں کی اتنی ترقی ہو چکی تھی کہ کئی ملکوں نے ایسے راکٹ بھیجے جو ہیلی کومیٹ کے بہت نزدیک جاکر مشاہدہ کر پائے۔ ان راکٹوں کا بھیجنا اور اس طرح کے سائنسی مشن کی کامیابی بھی نیوٹن کے قانون کے سہی استعمال سے ہی ممکن ہو پائی ہے۔

نیوٹن کے قانون کی مقبولیت اور اس کی اہمیت کو منوانے میں فرانسیسی ریاضی داں پی ایس لاپلیس کی بہت محنت سے لکھی گئی 5 جلدوں والی کتاب میکانیک سیلیٹ کا اہم رول ہے۔ یہ کتاب 1799 سے 1825 تک چھپی۔ اس نے ریاضی کی نئی ترکیبوں کو اسعمال کر کے ساے سیاروں اور ان کے مختلف چاندوں کے سبھی اثرات کے مشکل مسئلہ کو حل کیا۔ اس کتاب کی فلکیاتی تحقیقات میں تقریباً وہی اہمیت ہے جو پوٹولمی کی اور بہت پہلے وقتوں کی کتاب اے ایل مجیٹ کی تھی۔

لاپلیس کی بے مثال کامیابی ایک نہایت مشکل مسئلہ جس میں سیاروں اور سورج کے بیچ کشش کی ریاضی سے مل کرنا اور تمام مشاہدات سے میل ہونا سبھی دانشوروں کو نیوٹن کے قوانین کی صداقت منوانے کے لئے کافی ہوا۔

جب لاپلیس نے اپنا یہ کارنامہ بادشاہ نیپولین کو پیش کیا تو اس کی کتاب کو دیکھنے کے بعد نیپولین نے اس سے پوچھا کہ اس میں کہیں خدا کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ تو لاپلیس نے جواب دیا کہ مجھ کو انس چیزوں کو سمجھنے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں ہوئی۔

نیوٹن کے قانون کی اگلی اہم کامیابی 1845 میں رونما ہوئی جب اس کے استعمال سے ایک نئے سیارے کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔

اس زمانے میں سورج سے دوری میں ساتواں سیارہ یورینس (جسے ویلیم ہاسکل نے 1781 میں معلوم کیا) ہی آخری سیارہ معلوم تھا۔

دو فلکیاتی سائنسدانوں، ایڈم انگلستان میں اور لاویرئر فرانسیسی نے یہ دیکھا کہ یورینس کا راستہ مکل طور سے ایلیپٹیکل (انڈاکار) نہیں ہے اور اس میں کافی بے ترتیبی ہے۔

وہ دونوں ہی نیوٹن کے قوانین کا استعمال کر کے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یورینس کے چلنے میں یہ بے ترتیبی ایک نامعلوم سیارے کی کشش کی وجہ سے ہے۔ وہ یہ بھی معلوم کر پائے کہ یہ نیا سیارہ کتنا بڑا اور کہا پر ہوگا۔

ایڈم نے جب کیمبرج فلکیاتی تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر چیلیس سے اس نئے سیارے کو تلاش کرنے میں مدد مانگی تو اس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ فرانس میں بھی لیویئرس کو اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔

کہانی کا اگلا موڑ اور بھی دلچسپ ہے۔ جرمنی میں برلن کی تجربہ گاہ کا ڈائریکٹر چھٹی پر تھا اور اس کی جگہ ایک نوجوان سائنسداں گالے تجربہ گاہ کے کام کام کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس پیش گوئی کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے مشاہدہ کی وجہ سے وہ نیا سیارہ نپچیون آخر کار معلوم ہوا۔

نیوٹن کے قوانین کی یہ ساری کامیابیاں نظام شمسی کے مختلف حصوں کے مطابق تھیں، اس کے علاوہ چاہے وہ پہلا مصنوعی سیارہ (1957) سپوتنک ہو، اپولو مشن ہو یا انسان کا چاند پر آنا جانا وغیر وغیر یہ سبھی نیوٹن کے قوانین کے استعمال سے ممکن ہو پائے ہیں۔ ان تمام کامیابیوں نے کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ میں درجہ بہ درجہ بیش قیمت اضافہ کیا۔ سائنسی طریقہ کار کے استعمال سے ہی ہم قدرت کے چند رازوں کو جان پئے ہیں۔ سچ کو جاننے کا کوئی اور چھوٹا سا راستہ نہیں ہے۔

نیوٹن کے زمینی کشش کے قانون کا ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں اس چیز کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اس کشش کا احساس ہونے میں کچھ بھی وقت نہیں لگے گا۔ یعنی سورج (جو ہماری زمین سے تقریباً 15 کروڑ کلو میٹر دور ہے) سے زمین تک یا کسی بھی سیارے تک نہ قوت لامحدود رفتار سے چلتی ہے۔

تاہم، زمینی کشش یا کسی بھی چیز کی رفتار کے مسئلہ کو صحیح سمجھ پانے اور اس سے جڑے ہوئے سائنس میں ایک نئے دور کے آغاز کے لئے ابھی تک البرٹ آئنسٹائن کے آنے کا انتظار تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔