اسٹیفن ہاکنگ کے بعد کا خلاء جلد پُر ہونے کی امید!

جب آئنسٹائن اس دنیا سے رخصت ہوا تھا تو اسٹیفن ہاکنگ کی اس دنیا میں موجودگی کے 13 برس ہو چکے تھے۔ جب تک اس نے پی ایچ ڈی مکمل کی وہ بیسویں صدی کے ذہین ترین شخص آئنسٹائن کا جانشین کہلانے لگاتھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

گلیلیو کی وفات اور نیوٹن کی پیدائش کے 300 سال بعد آنکھیں کھولنے والے موجودہ عہد کےعظیم ماہر فلکیات، طبعیات اور ریاضی دان اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہو چکا ہے ۔ ان کے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے سائنسی علم کی دنیا میں امید کی جا رہی ہے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہے گا۔

اس توقع کا فوری امکانی جواز یہ ہے کہ جب آئنسٹائن اس دنیا سے رخصت ہواتھا تو اسٹیفن ہاکنگ کی اس دنیا میں موجودگی کے 13 برس ہو چکے تھے۔ جب تک اس نے پی ایچ ڈی مکمل کی وہ بیسویں صدی کے ذہین ترین شخص آئنسٹائن کا جانشین کہلانے لگاتھا۔

پندرہویں صدی سےیہ سلسلہ جاری ہے کہ ہر بڑا سائنسدان دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے پیچھے کسی دوسرے عظیم سائنسدان کو چھوڑ کر جارہا ہے۔

ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو جانے والے اسٹیفن کو 1962میں ڈاکٹروں نے بتا یا کہ وہ جس مرض میں مبتلا ہو گیا ہے اُس کا بجز مرگ کوئی علاج نہیں۔ اُسی دن اسٹیفین نے طے کر لیا تھا کہ جب تک جئے گا اپنے عہد کی تکمیل کے ساتھ جئے گا اور ایسا کام کر جائے گا جو ایک طرف اسے موت کے خوف سے نجات دلادے اور دوسری جانب علم کے محاذ پربنی نوع انسان کی بھلائی کےامکانات کےنئے در وا ہو جائیں۔

اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، اسٹیفن ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس نے کبھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 1962ء نقطۂ انقلاب آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اس کے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔

اسٹیفن کو لاحق بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں زیادہ سست رفتار تھی جتنی ڈاکٹروں کو شروع میں اندیشہ تھا۔ نتیجے میں اس نے کئی ایسےحیرت انگیز سنگ میل عبور کر لئے جو عام لوگ اپنی زندگی میں حاصل نہیں کرپاتے ۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔ مرنے سے پہلے وہ دادا بھی بن چکا تھا۔ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس نے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لئے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے 2006میں طلاق دینے کے لئے دستاویز جمع کروا دیئے تھے۔ 2007 میں اس نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی جب وہ غیر ملک کے ایک جیٹ طیارے میں گیا جس نے اس کو بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اب اس کا اگلا مقصد خلا میں جانا تھا۔

8 جنوری 1942 کو پیدا ہونے والے اس آئنسٹائن ثانی نے کونیات (کوسمولوجی) کے بارے میں جدید ترین سائنسی تحقیقات پہلی بار 1988 میں اپنی تصنیف ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ کی شکل میں پیش کی جو انتہائی عام فہم زبان میں تھی ۔ اس نے سائنسی کتابوں میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔ بعد ازاں 2006 میں ’’اے بریفر ہسٹری آف ٹائم‘‘ نامی کتاب میں اس نے اکیسویں صدی کی ابتدا تک کونیات کے دقیق شعبوں میں ہونے والی تحقیق کو ایک بار پھر انتہائی آسان فہم انداز میں پیش کیا، جسے بلا شبہ ’’بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کا دوسرا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ابھی پچھلے سال برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی نے اسٹیفن ہاکنگ کے 1966کےپی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا تھا۔اس نے چند ہی دن میں مطالعے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔