آسام شہریت معاملہ: کلیم اور آبجکشن کا عمل 25 ستمبر سے

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اور جمعیۃعلماء آسام کے وکلاء مذہب سے اوپر اٹھ کر متاثرین کی قانونی مددکے لئے تیار ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پریس ریلیز

آج آسام شہریت کے پانچ الگ الگ معاملوں میں سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف آر نریمن کی دورکنی بنچ میں سماعت کا آغاز ہوا تو جمعیۃعلماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل ، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید ، سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اور وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیروی کے لئے پیش ہوئے۔ سب سے پہلے گورنمنٹ آف انڈیا کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت کی توجہ اس نکتہ پر مبذول کرائی کہ پندرہ دستاویزات میں سے جو پانچ دستاویزات نکال دیئے گئے ہیں یہ سب رول A4 کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ 1951 کی این آرسی اور 1971 تک کی ووٹر لسٹ خصوصی طورپر رول A4 کی بنیاد پر تیا ر کی گئی ہیں ، لہذاان کا ہٹایا جانا قانونا اور اصولاً غلط ہوگا، کیونکہ یہ سب دستاویزات درخواست داخل کرنے کے وقت میسرتھے ، جنہیں کلیم کی موجودہ مرحلے میں ہٹایا جانا غلط ہوگا ۔

اسی بات کی تائید کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ جو بھارت سرکارنے موقف اختیارکیا ہے وہی ہمارابھی موقف ہے اوراسی موقف کا ہم نے 17 ستمبر کو حلف نامہ بھی داخل کیا تھا ۔ جمعیۃعلماء ہند کے دوسرے وکیل سلمان خورشید نے کہا کہ ان دستاویزات کو ہٹانے کے علاوہ ہم نے اس سے پہلے کلیم اورآبجکشن (SOP)کے طریقہ کارکے متعلق بہت اہم تجاویز داخل کی تھیں ، اس پر بھی غورکرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں کورٹ نے کہا کہ آپ ان تجاویز کو اور مختصرکرکے دوبارہ پیش کریں، اس پر اگلی تاریخ 23 اکتوبر کو غورکیا جائے گا۔

جمعیۃعلماء ہند کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے کورٹ کو مخاطب کر کے کہا کہ این آرسی کے عمل سے گزرنے والے لوگ ان پڑھ اور کمزور ہیں اس لئے میری عدالت سے درخواست ہے کہ ان کو این آرسی میں اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے مکمل مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ان سبھی پندرہ دستاویزات میں سے کسی ایک کو داخل کرنے کی اجازت دی جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میری یہ بھی درخواست ہے کہ کورٹ نے جو پندرہ میں سے پانچ کو ملتوی کیا ہے اس کو بھی داخل کرنے کی اجازت دی جائے اس کے جواب میں کورٹ نے کہا کہ ان پانچ دستاویزات کو فی الوقت ہولڈ کیا ہے خارج نہیں کیا ہے ۔جب لوگ ان دس دستاویزات کے بنیادپر اپنے کاغذات این آرسی میں داخل کرچکے ہوں گے اور این آرسی کوآرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا اپنی رپورٹ دے دیں گے تب ہم ان پانچ ہولڈ کئے گئے دستاویزات کے متعلق اگلی تاریخ 23 اکتوبر کو بتلائیں گے ۔ کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلیم اور آبجکشن 25 ستمبر سے داخل کرنا شروع کردیں جس کی معیاد ساٹھ دن ہوگی ۔ یعنی 25 نومبر اور جن لوگوں کو ملتوی کئے ہوئے پانچ دستاویز ات میں سے کسی ایک سے این آرسی میں کلیم داخل کرنا ہے وہ ابھی انتظارکریں ان کو بھی کورٹ الگ سے اس کے علاوہ تیس دن کا موقع دیگی یہ بھی 23 اکتوبر کی سنوائی میں طے ہوجائیگا۔

پندرہ دستاویزات میں سے کورٹ نے جن پانچ دستاویزات کو الگ کئے ہیں وہ یہ ہے۔ (1) این آرسی کا1951ء اقتباس (2)۔24/مارچ1971ء سے پہلے کی الیکٹرورل رول کی تصدیق شدہ کاپی/اقتباس (3)۔1971 سے پہلے ریاست کے باہر کے کسی رجسٹرڈ اتھارٹی سے جاری کیا گیا شہریت کا سرٹیفیکٹ(4)۔1971ء سے پہلے کا ری فیوجی رجسٹریشن سرٹیفیکٹ(5)۔1971ء سے پہلے ایشو کیا گیا راشن کارڈ حکومتی مہر اور دستخط کے ساتھ۔فی الحال وہ دستاویزات جن کو این آرسی کے عمل میں داخل کرنا ہے وہ دس دستاویزات یہ ہیں.۔ 1971ء سے پہلے کی زمین رجسٹری کا دستاویز (سیل ڈیڈ، زمین کے حقوق کا ریکارڈ وغیرہ)(ii)1971 سے پہلے کا ریاست کے باہر کے کسی اتھارٹی کی طرف سے جارہ کردہ مستقل رہائش کا دستاویز۔(iii) 1971 سے پہلے حکومت ہند کی طرف سے جاری پاسپورٹ۔(iv)1971 سے پہلے کا لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کی انشورنس پالیسی متعلقہ مدت کے لئے۔(v)1971ء سے پہلے حکومت کی طرف سے ایشو کیا گیا کوئی لائسنس۔(vi) 1971ء سے پہلے کا سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت یا خدمت کا کوئی دستاویز (vii) 1971ء سے پہلے کا بینک یا پوسٹ آفس کا دستاویز۔ (viii) 1971ء سے پہلے کسی سرکاری اتھارٹی کی طرف سے ایشو کیا گیا برتھ سرٹیفیکٹ۔ (ix)1971 سے پہلے کا کوئی اسکولی دستاویز۔ (x) 1971ء سے پہلے کا کوئی عدالتی کاروائی کا ریکارڈ۔

صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے وکلاء کی بحث سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ امید افزابات یہ ہے کہ پندرہ دستاویزات میں سے جو پانچ دستاویزات الگ کئے گئے ہیں عدالت نے انہیں مستردنہیں کیا ہے اور اس بات کی وضاحت بھی کردی ہے کہ آئندہ جن لوگوں کے نام این آرسی میں شامل نہ ہوں گے انہیں دوبارہ شہریت ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا، اور تب دیگر پانچ دستاویزات پیش کرنے کی اجازت بھی انہیں حاصل ہوگی ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مسئلہ پر عدالت بہت حساس ہے ۔ انہوں نے آسام کی عوام سے اپیل کی کہ وہ اس تعلق سے بالکل پریشان اور مایوس نہ ہوں، 25 ستمبر سے این آرسی کے تیاری کا جب دوبارہ عمل شروع ہوگا تو جمعیۃ علماء ہند اورجمعیۃعلماء آسام کے وکلاء کی ٹیم اور کارکنان تمام مراکز پر موجود رہیں گے ، جہاں وہ مذہب وملت سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، تمام متاثرین کو قانونی امداد فراہم کریں گے ۔ فارم پرکرنا ہو، کلیم داخل کرنا ہو، یا دستاویزات کی تیاری کامعاملہ ہو، یہ لوگ ہر طرح سے متاثرین کی مددکریں گے۔ مولانا مدنی نے تمام متاثرین سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ وقت مقررہ پر اپنے دستاویزات کے ساتھ این آرسی مراکز پر جائیں اور اپنی شہریت کے کاغذات داخل کریں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ بھی جہاں ضرورت محسوس ہوگی ، جمعیۃعلماء ہند ان کی مددکیلئے ہمیشہ کی طرح موجودرہے گی ۔مزید صدر جمعیۃ علماء آسام مولانا مشتاق عنفر نے کہا کہ ہم نے آسام کی متاثرین کی مددکے لئے وکلاء کا ایک پینل بھی تشکیل دے دیا ہے جو آبجکشن اور کلیم کے عمل کے دوران تمام مراکز پر جمعیۃ علماء کے ورکرس کے ساتھ متاثرین کی قانونی مددکے لئے موجودرہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */