یوگی جی کا اتر پردیش حقیقی معنوں میں ہوگیا اُلٹا پردیش

پولس کی زیادتیوں کا یہ عالم ہے کہ عام لوگ تو درکنار اب صحافیوں تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہو جاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

آر ایس ایس کی مہربانی، طاقت، صلاحیت اور نیز میڈیا کی مہربانی سے اس وقت بنگال میں امن عامہ کی صورت حال عوامی گفتگو کا موضوع بنی ہے جبکہ اگر حقیقی معنوں میں اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اتر پردیش سہی معنوں میں جرائم اور پولس کی زیادتیوں کے معاملہ میں صف اول میں شامل ہو گیا ہے۔ قتل، ریپ، دلتوں پر مظالم اور فرقہ وارانہ منافرت اپنے عروج پر ہے، پولس کی زیادتیوں کا یہ عالم ہے کہ عام لوگ تو درکنار اب صحافیو ں تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہو جاتا ہے، وہی کچھ آج کل اتر پردیش کے پولس محکمہ میں دکھائی دے رہا ہے۔

ایک خاتون نے باقاعدہ میڈیا میں بیان دیا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے اس کے رومانٹک تعلقات ہیں، ظاہر ہے یہ ایک سنسنی خیز خبر تھی اور آج صحافت کا جو انداز اور معیار ہے یہ اس کے لئے ایک بڑی خبر بریکنگ نیوز تھی اس خبر کو پرشانت قنوجیا نام کے ایک صحافی نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں ڈال دی


ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہوتا ہے ویسا ہی کچھ اس معاملہ میں ہوا۔ مذکورہ خاتون نے الزام وزیر اعلی پر لگایا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوگی جی خود اس کی تردید کرتے اور اگر چاہتے تو پولس میں رپورٹ بھی درج کرا سکتے تھے، اس کے بعد ہی پولس کو حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا بس ایک دروغہ جی کی رگ وفاداری پھڑکی اور انہوں نے از خود ایف آئی آر درج کرا کے سادی وردی میں لکھنؤ سے دہلی پہنچ کر اس صحافی کو ایسے گرفتار کر لیا جیسے کسی دہشت گرد کو گرفتار کیا ہو، ایک ریاست سے دوسری ریاست میں ملزم کو لے جانے کے لئے جو ٹرانزٹ ریمانڈ لینی ہوتی ہے وہ بھی دہلی کی عدالت سے نہیں حاصل کی گئی، غرض کہ پوری کارروائی نہایت ہی غیر قانونی طریقہ سے انجام دی گئی لیکن اتر پردیش حکومت نے اس لاقانونیت کے خلاف پولس پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ یوگی جی کی مرضی اور ایما پر کیا گیا تھا۔

وہ تو کہیے پرشانت کی اہلیہ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں انہوں نے فوری طور سے سپریم کورٹ میں حبس بیجا کی عرضی لگا دی اور سپریم کورٹ نے ان کی فوری رہائی کا نہ صرف حکم جاری کر دیا بلکہ حکومت کو صاف لفظوں میں آگاہ بھی کر دیا کہ شخصی آزادی کے معاملہ میں عدالت کسی بھی قسم کی روگردانی برداشت نہیں کرے گی، لیکن کتنے ایسے صحافی ہیں جو سپریم کورٹ تک پہنچنے کی صلاحیت اور حیثیت رکھتے ہیں وہ حکومت یا با اثر نیتاؤں، مافیاؤں اور بلڈروں کے اشارہ پر پولس کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں اور الٹے مقدموں میں پھنسا دیئے جاتے ہیں، کتنوں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار ہونا پڑتا ہے۔


ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ شاملی ریلوے سٹیشن پر ٹکٹوں خاص کر ریزرویشن کے معاملوں میں ہو رہی بدعنوانی کی رپورٹنگ کے لئے گئے ایک صحافی کو ریلوے پولس کے عملہ نے پکڑ کر نہ صرف بری طرح زد و کوب کیا بلکہ ایک داروغہ نے اس کے منہ پر پیشاب بھی کر دیا اس پر ہنگامہ ہوا تو عملہ کو معطل کر دیا گیا۔

شرمناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ صحافیوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف خود صحافتی برادری ویسے آواز نہیں اٹھاتی جیسی اٹھنی چاہیے در اصل سماج کے ہر طبقہ کی طرح صحافتی برادری بھی مودی حامی اور مودی مخالف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے


صحافیوں کی اکثریت کو ہندوتوا کا نشہ چڑھا ہوا ہے یہاں تک کہ اپنی برادری پر بھی ہونے والے مظالم کو وہ نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ سنگھ پریوار کی بنیادی روش کے مطابق پرانی باتیں یاد دلا کر اسے ہلکا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جیسے ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز فراہم کرتی ہو۔

انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹ دو گروپوں میں منقسم ہے لیکن دونوں میں سے کسی ایک نے بھی صحافیوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف ایک بیان تک نہیں جاری کیا، دھرنا مظاہرہ وغیرہ تو الگ کی بات ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک پریس نوٹ جاری کر کے ان واقعات کی مذمت کا فرض ادا کر دیا، جبکہ پریس کونسل آف انڈیا نے شاملی واقعہ کی جانچ کے لئے ایک ٹیم بھیجی ہے۔ یہ واقعات تو وہ ہیں جومنظر عام پر آ گئے اور جن میں بڑے صحافی وابستہ تھے ضلع اور تحصیل کی سطح پر کام کرنے والے صحافیوں کی جان ہمیشہ خطرہ میں رہتی ہے، انھیں نیتاؤں، افسروں، مافیاؤں، ٹھیکیداروں اور بلڈروں وغیرہ سے ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا ہے اور ستم بالاے ستم برا وقت پڑنے پر ان کے اخبار اور چنل بھی ان کو اپنا بتانے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ انھیں معاوضہ وغیرہ دینا پڑ سکتا ہے ایسے ایماندار اور جانباز صحافیوں کر تحفظ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔


ضرورت ہے کہ حکومت اور صحافیوں کی انجمنیں اس صورت حال پر غور کریں اور صحافیوں کو ان کے فرض منصبی ادا کرنے کی نہ صرف آزادی یقینی بنائیں جو کہ ہمارے آئیں کا جزو لاینفک ہے بلکہ جو جمہوریت کی بقا کی شرط اولین ہے صحافیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیشے کی آبرو اور غیر جانب داری کو یقینی بناۓ رکھنے کے لئے ایمانداری اور غیر جانبداری سے اپنا قلم چلائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM