ٹرمپ کا دورہ ہند، انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش... نواب علی اختر

امریکی صدر ٹرمپ جمہوریت اور مذہبی آزادی کے بارے میں مشترکہ روایت کے بارے میں نجی گفتگو اور عوامی طور پر بھی یقیناً بات کریں گے۔ وہ بطور خاص مذہبی آزادی جیسے امور کو اٹھائیں گے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

اب سے چند گھنٹوں بعدہی دنیا کے تقریباً سب سے طاقتور ملک امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنے والے ہیں جس کے انتظامات کے لیے مودی حکومت نے اپنی پوری توانائی جھونک رکھی ہے۔ ویسے تو بظاہرٹرمپ کا دورہ ہند دونوں ممالک کے مابین بڑھتے تعلقات کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ حالانکہ ٹرمپ کا یہ دورہ سیاسی نوعیت کے لحاظ سے زیادہ اہم لگتا ہے۔ نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں جس میں ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کے لئے ہندوستان بالخصوص گجرات کا دورہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں کیونکہ امریکہ میں ہند نزاد ہزاروں لوگ (امریکی آبادی کا 6 فیصد) آباد ہیں جس کا فائدہ ٹرمپ کو انتخابات میں مل سکتا ہے۔ یایوں کہیں کہ گجرات کا دورہ کر کے ٹرمپ ٹریندرمودی کے’ہاو ڈی مودی‘ کا قرض اتارنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر سے شروع ہونے والا ٹرمپ کا دورہ ہند دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی اختلافات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گا لیکن گزشتہ روز دونوں ممالک کے مجوزہ مذاکرات کے ایجنڈے کے تعلق سے ٹرمپ انتظامیہ کے بیان نے اچانک سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ میرے خیال سے صدر ٹرمپ جمہوریت اور مذہبی آزادی کے بارے میں ہماری مشترکہ روایت کے بارے میں نجی گفتگو اور عوامی طور پر بھی یقیناً بات کریں گے۔ وہ بطور خاص مذہبی آزادی جیسے امور کو اٹھائیں گے۔ اس معاملے پر بات کی جائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ تجزیہ کار اس بیان کو ہندوستان میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون اور قومی شہری رجسٹر پر ہندوستانیوں کی مخالفت کے تعلق سے دیکھ رہے ہیں۔


ٹرمپ کا پیر سے شروع ہونے والا دورہ ہند ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کے لیے ضرورت سے زیادہ ہی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ یہ بات سب پرعیاں ہے کہ مودی حکومت تشہیر کے معاملہ میں سبھی کو پیچھے چھوڑنے میں مہارت رکھتی ہے۔ معمولی سی بات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اس حکومت کا وطیرہ بن گیا ہے۔ اس ساری مہارت کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کے اہم اور سلگتے ہوئے مسائل پر عوام کی توجہ مرکوز ہونے نہ پائے۔ عوام حکومت سے اس کے وعدوں اور اس کی کارکردگی پر سوال کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوجائیں۔ چاہے اختلافی اور نزاعی مسائل ہوں یا کسی بیرونی مہمان کا استقبال ہو، تشہیر اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ سارا ملک اس کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے تیاریاں ہوں یا میڈیا کی جانب سے لاحاصل مباحث ہوں، سبھی کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی توجہ ایک بار پھر ملک و ملک کے عوام کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل سے بھٹکائی جا رہی ہے۔

سب سے زیادہ اہمیت ٹرمپ کے دورہ گجرات کو دی جا رہی ہے۔ ٹرمپ سیدھے گجرات پہنچیں گے۔ احمد آباد میں ایک اسٹیڈیم کا افتتاح کریں گے، روڈ شو میں حصہ لیں گے اور پھر اسٹیڈیم میں ایک مشترکہ جلسہ سے خطاب کریں گے۔ ایک طرح سے یہ امریکہ میں ہوئے ہاوڈی موڈی کا امریکی ورژن کہا جاسکتا ہے جس سے ٹرمپ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی اس کوشش میں مودی حکومت پوری طرح سے تعاون کر رہی ہے۔ حالانکہ ٹرمپ کے اس دورہ سے کوئی خاص تجارتی فائدہ ہونے والا نظر نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ نے تجارتی امور پر ہندوستان پر بھی شرائط عائد کردی ہیں۔ اس معاملہ میں امریکہ ہندوستان کو کوئی خاص رعایت دینے بھی تیار نظر نہیں آتا۔ خود ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بیان دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ فی الحال تجارتی معاہدہ کی امید کرنا فضول ہی ہوگا۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تجارتی امور میں ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ کوئی خصوصی رویہ بھی اختیار نہیں کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کے دورہ ہند کے موقع پر کوئی تجارتی معاہدہ طے نہیں ہو پائے گا۔


اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ملک کے وزیراعظم ہندوستان کی پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کا جو خواب دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ابھی پروان نہیں چڑھ پائے گی۔ اس کے علاوہ بین السطور سے واضح ہوتا ہے کہ اس دورہ سے ہندوستان سے زیادہ امریکہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت ہند کا جہاں تک سوال ہے وہ اس دورہ پر کروڑہا روپیہ خرچ کر رہی ہے، پیسہ پانی کی طرح بہایا جار ہا ہے۔ ملک میں ایسے بے شمار مسائل ہیں جن پر حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکومت لیپا پوتی پر اکتفا کر رہی ہے۔ احمد آباد میں سلم بستیوں کے گرد دیوار کھڑی کی جا رہی ہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ جب انتخابات ہوتے ہیں اور ووٹ مانگنا ہوتا ہے مودی اپنی غربت کا واسطہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب ٹرمپ کو مدعو کرنا ہوتا ہے توا سی غربت کے گرد دیوار کھڑی کرکے اسے چھپانا چاہتے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ کے پاس ڈرون کیمرے ہیں، اس کے بعد بھی مودی جی نے دیوار کھڑی کردی تاکہ غریبوں کا گھر نہ نظر آئے۔ اس دیوار سے الگ موٹیرا اسٹیڈیم کی طرف ایک اور دیوار ہے۔ اس بستی کی دیوار کو ایسٹ مین کلر والے لک میں رنگا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اور مودی جی کے نیچے یو اینڈ آئی( آپ اور میں) لکھا ہے۔ ایک طرف ہم اس سطح کی نزدیکی دکھا رہے ہیں اوردوسری طرف ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ مصور کے تصور کا ہند امریکہ رشتہ کارٹون کی کتاب کی طرح کہانی میں بدل رہا ہے۔ یہاں پر ایگل اور پکاک دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں ہی امریکہ اور ہندوستان کے قومی پرندے ہیں۔ ’آپ اور میں‘ کی جگل بندی کی علامت بن گئے ہیں۔ یہ خوبصورت پینٹنگ جس دیوار پر کی گئی ہے اس کے پیچھے ہندوستانی کی غریبی رہتی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں ٹرمپ اس دورہ سے انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہیں مودی حکومت بھی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔