مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا... گوہر رضا

پارلیمنٹ کی بحث نے مداری کی یاد دلا دی۔ مداری نے ہاتھ چلائے، آنکھیں نچائیں، بھویں اوپر نیچے کیں، چیخ ماری اور بیچ بیچ میں ادا سے پانی بھی پیا۔ تماشا پورا تھا لیکن مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

گوہر رضا

ہمارے ایک چچا ہوا کرتے تھے، کمار چچا، ویسے تو پڑوس میں رہنے والے سبھی چچا یا ماموں ہوتے تھے لیکن یہ چچا محلہ کے سارے بچو ں کو بہت پسند تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیں اکثر سڑک کے کنارے مجمع لگا کر کھیل دکھانے والے مداریوں کا تماشہ دکھانے لے جاتے تھے۔ کمار چچا کو کتابوں سے بہت محبت تھی اور اس وجہ سے پورے محلہ میں ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے مداریوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اس پر انہوں نے محلہ کے بڑوں کو راضی بھی کر لیا تھا اسی لئے بچوں کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت بھی مل جاتی تھی۔ ہمیں ان کے اس فلسفہ کی خبر نہیں تھی، لیکن مداری کا کھیل دیکھنے میں مزہ بہت آتا تھا۔ ہمارا تو یہ خیال تھا کہ کمار چچا کو مداری کا کھیل دیکھنے میں خود مزہ آتا ہوگا اور وہ ہمارے بہانے مہینے دو مہینے میں مداری کا کھیل دیکھنے چل دیتے تھے۔

سارے ہی مداری تقریباً ایک ہی طرح سے کھیل شروع کرتے تھے۔ سب کے پاس ایک جھولی ہوا کرتی تھی، جسے وہ بھیڑ کے درمیان گھوم گھوم کر کندھے سے اتارکر ایسے رکھتے تھے جیسے بڑا اہم کام کر رہے ہوں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ سب کی نظر ان پر پڑ جائے اور پھر ایک ادا سے اس جھولی میں سے ڈگڈگی نکالتے اور بجا بجا کر لوگوں کو گولا بنانے پر آمادہ کرتے تھے۔ اس گولے میں بچوں کو آگے آنے کی جگہ ملتی تھی۔

مداری ڈگڈگی بجاتا، پہلے اس کی آواز کم ہوتی پھر تیز ہوتی چلی جاتی اور پھر ایسی ہو جاتی جیسے مداری ڈگڈگی کے ذریعہ الگ الگ لوگوں سے باتیں کر رہا ہو۔ پھر مداری جھٹ سے ایک لمبی تقریر کرتا جو گانے اور تقریر کا مجموعہ ہوتی تھی۔ بات مہربان، قدردان سے شروع ہوتی تھی اور نہ جانے کہاں سے اس میں سانپ کا جوڑا، ناگن کا فن، بکولی کے پھول، طوطے کی جان، رانی کے جھومر، آسمان کی سیر، جگنو کی پونچھ، شیر کے پھیپھڑے اور گدھی کا دودھ آ جاتا تھا۔

مداری کی آواز کبھی اونچی اور کبھی دھیمی، کبھی ہنسانے والی اور کبھی ڈرانے والی ہوجاتی اور بیچ بیچ میں وہ شعر اور دوہے بھی پڑھتا جاتا۔ وہ ہوا میں بار بار ہاتھ ہلاتا، ادھر سے ادھر، ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے ہاتھ ہی باتیں کر رہے ہوں، آنکھیں بھی خوب مٹکاتا، بھویں اوپر نیچے ہوتی رہتیں، ایک ادا سے بیچ بیچ میں پانی پیتا، ہر بار پانی پینے کے بعد اس کی آواز دھیمی ہو جاتی۔ کبھی ہاتھ ایسے پھیلاتا جیسے اڑ جائے گا اور کبھی انگلی سے ہوا میں سراخ کر دیتا۔ ہم بچے کھیل کا انتظار کرتے ہوئے اس کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتے۔ کھیل شروع ہوتا تو مداری کبھی لوہے کا گولا کھا لیتا اور کبھی آگ میں نہاتا، کبھی کان سے دھواں نکالتا تو کبھی سر سے پانی کی دھار۔ بار بار چلّاتا کہ پیر کی مٹی مت چھوڑنا ورنہ خون کی الٹی کروگے، کبھی ہاتھوں پر چل کر دکھاتا تو کبھی ٹوپی سے کبوتر نکال کر کہتا بچوں ڈیڑھ ہاتھ کی تالی بجاؤ۔ یہ ڈیڑھ ہاتھ کی تالی کیا ہوتی ہے ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آیا، پھر بھی ہم تالی ضرور بجا دیتے۔

لیکن ایسا بھی ہوتا کہ مداری کی تمام کوششوں کے باوجود بھیڑ منتشر ہوجاتی۔ پہلے وہ لوگ جو پیچھے کی قطاروں میں اچک اچک کر تماشہ دیکھ رہے لوگ جانا شروع کردیتے اور پھر آگے کی قطار کے لوگ ادھر ادھر ہونے لگتے۔ ایسے میں مداری اور ڈگڈگی کی آواز چیخوں میں بدل جاتی۔ جیسے چیخ چیخ کر لوگوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو اور یہ کہہ رہی ہوکہ کچھ تو دیتے جاؤ۔ جب کھیل بد مزہ ہوتا تو چچا ہم بچوں سے کہتے کہ آج مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا۔

جمعہ کو پارلیمنٹ میں ہوئی بحث نے مجھے مداری کی یاد دلا دی۔ مداری نے ویسے ہی ہاتھ چلائے، آنکھیں نچائیں، بھویں اوپر نیچے کیں، کبھی چیخا، کبھی آواز دھیمے کی، کبھی ہاتھ اڑنے کی کیفیت میں پھیلائے تو کبھی انگلی سے ہوا میں سراخ کیا۔ بیچ بیچ میں ادا سے پانی پیا۔ شعر اور دوہے کا تڑکا بھی لگایا۔ تماشہ پورا تھا لیکن مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔