سنہ 2019 میں بی جے پی کو کیسے ہرایا جا سکتا ہے!... ظفر آغا

جارحانہ ہندوتوا حکمت عملی کی کاٹ کے لیے محض ایک لفظ درکار ہے اور وہ ہے صبر۔ اس وقت اقلیتوں کا کام صرف یہی ہونا چاہیے کہ وہ صبر اور دانش مندانہ طریقے سے ووٹ ڈالے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

دو روز قبل دہلی سے ملے گروگرام (گڑگاؤں) نام کی جگہ پر ایک مسلم فرد کو کچھ لوگوں نے گھس کر اس کے گھر میں پیٹا اور وہ اس سے اس ہنگامے کے دوران یہی کہے جا رہے تھے کہ ’’تو یہاں کیا کر رہا ہے، پاکستان جا‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ لیکن یہ واقعہ محض ایک فرقہ وارانہ حرکت نہیں بلکہ اس حرکت کے پیچھے ایک منظم سیاسی سازش اور منشا شامل ہے۔ اب یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے کس قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ اب یہ سب کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان حرکتوں کا تعلق ہندوتوا نظریہ کے افراد سے ہے جس کا سیدھا رشتہ سنگھ اور بی جے پی سے ہے۔ تو ظاہر ہے کہ گروگرام واقعہ کے پیچھے بھی اسی نظریہ کے افراد ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سنگھ یا بی جے پی کو عین الیکشن کے درمیان اس قسم کی حرکت کی کیا ضرورت پڑ گئی!

دراصل فرقہ واریت کا سیدھا تعلق سیاست سے ہی ہوتا ہے اور چناؤ ہر قسم کی سیاست کے عروج کا وقت ہوتا ہے۔ سنہ 2019 کے لوک سبھا چناؤ سر پر ہیں۔ ہندوتوا نظریہ میں یقین رکھنے والوں کو اس وقت فرقہ وارانہ حکمت عملی کے ذریعہ دو فرقوں کے بیچ نفرت پیدا کر اکثریت کی ہمدردی حاصل کرنا ہے تاکہ چناؤ میں وہ اس کو ووٹ ڈالیں۔ اس طرح فرقہ پرست تنظیم پھر اقتدار پر قابض ہو جائے۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ دو فرقہ ہندو اور مسلمان ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ الیکشن تک ’موب لنچنگ‘ یا گروگرام جیسا واقعہ کہیں اور کسی وقت بھی پیش آ سکتا ہے۔

اس قسم کے واقعہ کے ذریعہ بی جے پی حامی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف اکثریت میں اقلیت کا خوف پیدا کرتی ہیں اور پھر مودی جی خود کو اکثریت کا ’رکشک‘ یعنی محافظ کا روپ دے کر اکثریت کی ہمدردی حاصل کر ان کا ووٹ بٹورتے ہیں۔ اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لیے ایک دشمن کا پیدا کرنا لازمی ہے۔ بالاکوٹ واقعہ کے بعد سے بی جے پی اور سنگھ کو پاکستان ایک دشمن کے روپ میں مل گیا ہے۔ پھر پاکستان ہندوستان کے خلاف جس قسم کی دہشت گردانہ حرکتیں کرتا رہتا ہے اس سے بی جے پی کا کام آسان بھی بہت ہو گیا ہے۔ لیکن محض بالاکوٹ کا شور مچاتے رہنے سے بی جے پی کی حکمت عملی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے ملک میں ایک اندرونی پاکستان بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عام ہندو اس کے خلاف ایک جٹ ہو کر مودی کو ووٹ ڈالے۔ اور وہ دشمن اس ملک کا مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ تب ہی تو گروگرام میں ایک مسلمان کو صرف گھر میں گھس کر پیٹا ہی نہیں گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ شور بھی مچایا گیا کہ ’’تو پاکستان جا‘‘۔ یعنی اس ملک کا ہر مسلمان پاکستانی ہے اس لیے وہ پاکستان کی طرح ہندو دشمن بھی ہے۔

الغرض یہ تو ہے بی جے پی اور سنگھ کی حکمت عملی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس جارحانہ ہندوتوا حکمت عملی کی کاٹ کیا ہو سکتی ہے۔ اس حکمت عملی کی کاٹ کے لیے محض ایک لفظ درکار ہے اور وہ ہے صبر۔ لیکن بھلا صبر سے سیاست اور چناؤ کا کیا لینا دینا ہو سکتا ہے۔ مگر میں عرض کروں کہ اس وقت اقلیتوں کا کام محض صبر اور دانش مندانہ طور سے ووٹ ڈالنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ صبر اس لیے کہ جب گروگرام جیسا واقعہ پیش آئے گا تو مسلم اقلیت کا بھی خون کھول سکتا ہے اور وہ احتجاج میں کوئی ایسی حرکت کر سکتے ہیں جس کو ہندتوا تنظیمیں ہندو دشمنی کا رنگ دے سکیں۔ بس اگر وہ مسلمانوں کی کسی بھی حرکت کو ہندو دشمنی کا رنگ دے پائے تو پھر اس سے ہندو اکثریت میں مسلم مخالف رد عمل نفرت کا رنگ لے لیگی اور وہ اپنے مسائل بھول کر ہندو محافظ مودی کو اپنا ووٹ ڈال دے گی۔ سنہ 2002 کے دنگوں میں مودی نے گودھرا واقعہ کو ہندو دشمنی کی علامت بنا کر اس کا استعمال مسلم منافرت پیدا کرنے کے لیے کیا تھا اور وہ کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح سنہ 1990 کی دہائی میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے پرزور نعرہ تکبیر کے ساتھ ہونے والی ریلیوں میں بابری مسجد بچانے کی مہم کو بی جے پی نے رام مخالف تحریک کا رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ ان دونوں حادثوں میں جذباتی رد عمل کے سبب مسلمان کو سخت نقصان ہوا۔ گجرات میں ہزاروں مارے گئے اور ایودھیا میں مسجد تو گئی ہی، ساتھ ہی ہزاروں جان سے بھی گئے۔

اس لیے یہ واضح ہے کہ جذبات پر مبنی سیاست یا رد عمل نہ صرف حماقت و نقصان دہ ہے بلکہ اس سے محض ہندوتوا طاقتوں کو ہی فائدہ ہے۔ اس صورت حال میں اقلیت کا محض ایک ہی ہتھیار بچتا ہے اور وہ ہے صبر۔ یعنی اگر اس وقت بالخصوص چناؤ تک مسلم اقلیت گروگرام جیسے واقعہ پر خاموشی اختیار رکھے اور ایسے واقعات پر ملک کی سیکولر اکثریت کو رد عمل کا اظہار کرنے دے تو بہتر ہی نہیں بلکہ عقلمندی بھی ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال مسلم سیاست میں ڈھونڈ پانا تقریباً ناممکن ہے۔ مودی حکومت نے اور ہندوتوا تنظیموں نے پچھلے پانچ برسوں میں ہر ممکن کوشش کر ڈالی کہ کسی طرح مسلمان کو اشتعال پیدا ہو اور وہ جذبات میں سڑکوں پر نکل کر نعرۂ تکبیر لگا کر ویسے ہی ریلیاں کریں جیسی کہ طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد تحریک کے دور میں کی تھیں۔ وہ موب لنچنگ رہی ہو یا کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام پر اخباروں میں ہنگامہ رہا ہو یا پھر طلاق ثلاثہ قانون رہا ہو یا پھر رام مندر کا معاملہ رہا ہو، ان تمام باتوں میں مسلم مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سڑکوں پر اتارنے کی منشا بھی شامل تھی۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ نام نہاد مسلم لیڈروں کو پیسہ دے کر مسلمانوں کو سڑکوں پر نکالنے کی بھی کوشش ہوئی۔ لیکن عام مسلمان نے جس عقلمندی کا ثبوت دیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ صبر کی رسی پکڑے رہا اور اس طرح ہندوتوا طاقتوں کی حکمت عملی ناکام رہی۔ تب ہی تو ملک میں پانچ برسوں میں مسلم ایشو کے بجائے کبھی نوٹ بندی تو کبھی جی ایس ٹی تو کبھی بے روزگاری تو کبھی کسانوں کی خستہ حالی جیسے معاشی ایشو ملک پر چھائے رہے۔ اگر مسلمان جذبات میں طلاق ثلاثہ جیسے معاملے پر نکل پڑتا تو بس سارے یہ مسائل دھرے رہ جاتے۔ اس لیے صرف اور صرف صبر کی رسی پکڑے رہیے اور یہ سمجھیے کہ اسی میں بقا ہے، کیونکہ اس طرح فرضی ایشو کے بجائے الیکشن اصل مسائل پر ہوگا۔

پھر اقلیتوں کی چناوی حکمت عملی کا دوسرا اہم جز دانش مندانہ طرز سے ووٹنگ ہے۔ بی جے پی نہ صرف اقلیتوں بلکہ ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ ملک کا آئین خطرے میں ہے۔ اس ملک کی عدلیہ سے لے کر دوسرے اہم ادارے خطرے میں ہیں۔ اقلیتوں کو جان و مال کے خطرے کے ساتھ ساتھ دوسرے درجے کا شہری بنانے کا خطرہ بھی منڈرا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ملک کے سامنے کیا راستہ ہو سکتا ہے۔ دیکھیے سنہ 2014 میں جب کہ بی جے پی اور مودی اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے تو ان کو محض 31 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ یعنی 69 فیصد ووٹ بی جے پی مخالف پارٹیوں کو ملے تھے۔ لیکن بی جے پی کم ووٹ پا کر بھی اقتدار میں اس لیے آ گئی کہ اپوزیشن کے ووٹ آپس میں تقسیم ہوگئے ۔ یعنی اگر اس بار اپوزیشن میں اتحاد ہو جائے تو مودی ہرگز وزیر اعظم نہیں بن سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس بار کانگریس سمیت دیگر اہم اپوزیشن پارٹیوں نے آپسی اتحاد کی مہم چلائی اور یہ مہم بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی۔ مثلاً کرناٹک، مہاراشٹر، بہار، جھارکھنڈ اور جلد دہلی میں کانگریس کا اہم اپوزیشن پارٹیوں سے اتحاد ہو چکا ہے۔ پھر کئی صوبے ایسے ہیں جہاں کانگریس اور بی جے پی کی سیدھی لڑائی ہے۔ پھر تیسری سطح پر وہ صوبے ہیں جہاں صوبائی پارٹیاں بہت اہم ہیں۔ اکثر صوبوں میں صوبائی پارٹیوں نے اتحاد کیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں اتحاد نہیں ہے یا پوری طرح اتحاد نہیں ہے۔

ایسی صورت حال میں کیا ہو سکتا ہے! جہاں جہاں اتحاد ہے وہاں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جہاں اتحاد نہیں ہے وہاں اس بات کا خیال کرنا ہے کہ اس بار کا چناؤ کسی ایک پارٹی کی ہار-جیت کا چناؤ نہیں ہے۔ بلکہ اس بار ملک اور آئین کو بچانے کا چناؤ ہے۔ اس تناظر میں آئین اور ملک کو بچانا ہی عقلمندی ہوگی۔ یعنی ووٹ بنٹنے نہ پائے۔ اتحاد کے ذریعہ ہندوتوا طاقتوں کو ہرانا ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہوگی۔

یعنی سنہ 2019 کے چناؤ میں ہر قسم کی جذباتیت سے گریز کیجیے۔ اگر کوئی مذہب یا فرقہ یا برادری کسی آڑ میں جذباتی باتیں کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ مودی دوست ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ووٹ بنٹنے سے ہر طرح بچائیے، اتحاد کے ساتھ رہیے اور ملک و آئین کا تحفظ کیجیے۔ اس طرح یقیناً ملک پر منڈرا رہا خطرہ یقیناً ٹل جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Mar 2019, 11:09 AM
/* */