کیا پانچ سالہ حکومت کو چھٹا بجٹ پیش کرنا چاہئے تھا؟

اچھا ہوتا کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال کی کارکردگی کو ہی عام انتخابات کا موضوع بناتی اور حکومت کو جمہوری روایات کو کچل کر نئے اعلانات کرنے کی کوئی ضرورت نہ پڑتی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

عین توقع کے مطابق مودی کی قیادت والی حکومت نے وہی کیا جس کی اس سے امید تھی اور جس کا اندازہ اس کے کام کرنے کے طریقہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس حکومت کے لئے جمہوری اقدار ، روایت اور ادارے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اس حکومت کے لئے اگر کوئی چیز اہمیت کی حامل ہے تو وہ کسی بھی طریقہ سے اقتدار میں آنا اور پھر بنے رہنا ۔ ہندوستانی جمہوری نظام میں عوام اپنی حکومت پانچ سال کے لئے منتخب کر تی ہے اور اس منتخب حکومت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ جب تک اس کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے اس وقت تک وہ زیادہ سے زیادہ پانچ بجٹ پیش کر ے اور اب تک ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن یہ مودی کی قیادت والی پہلی حکومت ہے جو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں چھٹا بجٹ پیش کرے گی ۔

ملک میں جب سے انتخابی تاریخیں بجٹ سے ٹکرانے لگی ہیں اس وقت سے بر سر اقتدار حکومت اپنے آخری سال میں صرف تین ماہ کے لئے ووٹ آن اکاؤنٹ پیش کرتی ہے تاکہ حکومت کا ضروری کام کاج چل سکے ۔ منتخب ہونے والی حکومت اپنا پورا بجٹ پیش کرتی ہے اور کچھ ایسا ہی اس حکومت نے بھی کیا تھا کیونکہ پچھلی منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت نے تین ماہ کے لئے ضروری ووٹ آن اکاؤنٹ پیش کیا تھا اور نو منتخب مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مکمل بجت پیش کیا تھا ۔ یہی جمہوری روایت ہے لیکن موجودہ مرکزی حکومت نے اس روایت کو توڑتے ہوئے عبوری بجٹ کے نام پر انتخابی وعدوں سے بھرا مکمل بجٹ پیش کر دیا ۔ اس حکومت نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ حال ہی میں تین بڑی ریاستوں میں کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے اور عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف کافی ناراضگی ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل کچھ بڑے اعلانات کر دئے جائیں تاکہ عوام ان اعلانات کے جھانسوں میں آکر ایک مرتبہ پھر بی جے پی کو اپنا ووٹ دے دیں ۔

جمہوری نظام میں یہ کسی کو نہیں معلوم کہ انتخابات میں عوام کس پارٹی یا کس اتحاد کو اقتدار سونپے گی اس لئے یہ گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ جس پارٹی کی حکومت عبوری بجٹ پیش کرنے والی ہے وہ ہی اقتدار میں واپس آئے گی۔ اس لئے آپ کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو لیکن اس بات کو آپ کو سمجھنا ہو گا کہ جو بھی اقتدار میں آئے گاعوام کے لئے اپنے منشور اور نظریہ کے مطابق عوام کے لئے بجٹ پیش کرے گا، کیونکہ عوام نے اس کے منشور اور نظریہ کی حمایت کی ہے۔ اگر کوئی حکومت عبوری بجٹ کی بجائے مکمل بجٹ پیش کرتی ہے تو پھر وہ اس لازمی اور اخلاقی تقاضہ سے انحراف کرتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت ایسا کوئی قدم نہ اٹھا تی جو غیر اخلاقی اور جمہوری روایت کے خلاف ہو۔

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں تنقید کا نشانہ رہی ہیں اور ماہرین ان پالیسیوں کو معیشت کی خراب کارکردگی کے لئے ذمہ دار مانتے ہیں ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے تعلق سے ملک اس کے منفی اثرات پہلے ہی دیکھ چکا ہے ۔ اس حکومت نے کئی اداروں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کے چکر میں ان جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا ہے، چاہے وہ سی بی آ ئی ہو یا آر بی آئی ہو۔

اچھا ہوتا کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال کی کارکردگی کو ہی عام انتخابات کا موضوع بناتی اور اس کو جمہوری روایات کو کچل کر نئے اعلانات کرنے کی کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ جو اعلانات اس نے آج کئے ہیں وہ گزشتہ سال کرسکتی تھی اور اس کو نافذ کر کے دکھا سکتی تھی ۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کا اس وقت اعلان کرنا جب حکومت کے پاس اپنے اعلانات کو نافذ کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے تو کہیں یہ اعلان بھی سال 2014 کے انتخابی جملوں کی طرح جملے تو نہیں ثابت ہو ں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔