کانگریس کی حکمت عملی سے حکمراں اتحاد چِت

اس بارحکومت کو ہٹانے کے لئے کئی ایشو بن کر تیار ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں جو نعرے لگا کر موجودہ حکومت برسراقتدارآئی تھی وہی نعرے انتخابی ایشو کے طور پر منہ کھولے کھڑے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

سیاسی رہنماوں کے ساتھ ہی عوام پر بھی عام انتخابات کا بخار تیز ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں، باوجود اس کے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ میڈیا نے اپنی قیاس آرائیوں کے سبھی گھوڑے کھول دیئے ہیں پھر بھی اب تک صاف نہیں ہو پایا ہے کہ انتخابات کاخاص ایشو کیا ہوگا۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات میں گنتی کے دن بچے ہوں اور یہ پتہ نہ چلے کہ خاص ایشو کیا بنے گا۔ ہوسکتا ہے کہ انتخابی ماہرین نے کچھ اندازہ کرلیا ہو لیکن وہ ابھی ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس بات کا انتظارکیا جا رہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد کا میدان تیار ہوجائے پھر لفظی جنگ شروع ہو۔ پھربھی حکمراں اور حزب اختلاف کی جانب سے انتخابی ماحول قائم رکھنے کے لئے اب تک جو کہا گیا ہے اس سے ایک ایشو ضرور نکل کر آرہا ہے اور وہ ہے’حکومت ہٹاو یا حکومت بچاو‘۔

واقعی یہ حیرت کی بات ہے۔ حکمراں اورحزب اختلاف دونوں نے قبول کرلیا ہے کہ مودی حکومت کو ہٹانا ہے یا بچائے رکھنا ہے۔ یہ بھی کم حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس کی شروعات حکمراں فریق کی طرف سے ہوئی تھی۔ شاید ماحول کا اندازہ کرتے ہوئے سب سے پہلے حکمراں طبقے نے ہی کہنا شروع کیا تھا کہ حزب اختلاف مودی حکومت کوہٹانا چاہتا ہے۔ حالانکہ حکمراں طبقے کی اس ’نادانی‘ کا کافی مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے اس لئے کہ یہ ایک عالمی اور دائمی حقیقت ہے کہ سیاست میں حزب اختلاف ہمیشہ یہی چاہتا ہے۔ جب کہ ایشو وہ اسباب بنتے ہیں کہ حکومت کوکیوں ہٹانا چاہیے۔ حالانکہ اس بارحکومت کو ہٹانے کے لئے کئی ایشو بن کر تیار ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں جو نعرے لگا کر یہ حکومت برسراقتدار آئی تھی وہ نعرے ہی انتخابی ایشوکے طورپرمنہ کھولے کھڑے پوئے ہیں۔

مثلاً نوجوانوں کو نوکری کے خواب، کسانوں، چھوٹے کاروباریوں کی خوشحالی کے وعدے، بدعنوانی مٹانے، بیرون ملک سے بلیک منی واپس لانے اور ایسے ہی دیگر کئی وعدے ہیں۔ حکومت ہٹانے کے لئے انہیں نعروں اور وعدوں کو اس بار انتخابی ایشو بننا تھا، بلکہ بن رہے ہیں اورآخرمیں بنیں گے بھی لیکن فی الحال میڈیا کے سجائے انتخابی بازار میں اتحاد کے ایشو کی زیادہ اہمیت ہے۔ خاص طور پر حزب اختلاف کی پارٹیوں کے اتحاد کے ایشو کا۔ جب کہ اس بات میں انتخابی ایشو کے عنصر ہی نظرنہیں آتے ہیں۔

ہندوستانی سیاست میں اتحاد عام بات ہوچکی ہے۔ حکمراں اورحزب اختلاف دونوں میں طرح طرح کی چھوٹی بڑی پارٹیاں شامل ہیں۔ کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اکیلے باقی سب سے لڑلے گا، ہندوستان جیسی جمہوریت میں توبلکل بھی نہیں۔ ویسی جمہوریت میں جہاں ذات اورمذہب کی بنیاد پر نا انصافی اور استحصال ہونے لگا ہو، غریب اور امیر کے درمیان اچانک خلیج بڑھ گئی ہو اور زراعت اور صنعت کے درمیان کھلے عام امتیاز کیا جا رہا ہو، علاقہ، زبان، کھانے، پینے کا تنوع اور حد درجے کے معاشی عدم مساوات والے جمہوری ملک میں سب کے مفاد کی نمائندگی کرنے کے لئے ایجاد کی گئی اتحاد کی نایاب سیاست کوکیوں نہ ایک سیاسی نعمت مانا جائے؟ اور اگر سیاسی فلسفہ کے لحاظ سے دیکھیں توجمہوریت میں مختلف نظریات کوقبول کیا جاتا ہے، اس کا گلا نہیں گھونٹا جاتا۔

اس بنیاد پرمختلف نظریات کے درمیان مساوات کے لئے اتحاد سے بہترکیا متبادل ہوسکتا ہے اور حکمراں اور حزب اختلاف کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں اتحاد کے فلسفے کو قبول کر رہی ہوں تو اسے جمہوریت کا سنہرا دور ہی کہا جانا چاہیے لیکن اس موقع پراگر اتفاق ہو تو وہ انتخابی ایشوتو بلکل نہیں بن سکتا یعنی انتخابات کاحقیقی اہم ایشو یا مسئلے ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ اچانک خوفناک ہو اٹھی بے روزگاری انتخابی ایشو بنے بغیر رہ نہیں سکتی۔

ملک کی نصف سے زیادہ آبادی والے گاؤں یا کسان ایشو بنیں گے ہی۔ ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین کا دکھ شاید پہلی بار انتخابی ایشو کی فہرست میں جگہ پانے جا رہا ہے۔ سیاست میں ابدی بن چکے بدعنوانی کے معاملے کو آئندہ انتخابات میں کچھ زیادہ اہمیت ملنے والی ہے۔ مثلاً نوٹ بندی اور رافیل گھوٹالہ،ای وی ایم میں مبینہ چھیڑ چھاڑ۔ یاد رکھنا ہوگا کہ عام انتخابات میں علاقائی اورمقامی سطح کے تمام مسائل کو اٹھائے جانے سے کوئی بھی کبھی بھی نہیں روک پایا ہے اس لئے وہ اس بار بھی رہیں گے بلکہ اس بار کچھ زیادہ تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں کیونکہ بدعنوانی کو لے کرحزب اختلاف کے ساتھ حکمراں فریق کے درمیان سے بھی آواز اٹھنے لگی ہے۔ وہیں اس بارحزب اختلاف کے اتحاد کی اہم بنیاد علاقائی توقعات کو نمائندگی دینا ہے۔

پانچ سال کے لئے ملک کی منیجری کا لائسنس پائے حکمرانوں کے پاس سے اب یہ کہنے کا موقع جاتا رہا ہے کہ وہ ملک میں گھی اور دودھ کی ندیاں بہا دیں گے۔ ویسے بھی تقریباً ایسا ہی نعرہ لگا کراقتدارمیں آئے تھے۔ یعنی حزب اختلاف کو اپنی طرف سے زیادہ خواب دکھانے یا زیادہ وعدے کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑنی چاہیے۔ اپوزیشن اتحاد کے پاس حکمرانوں کے پچھلے وعدوں کو یاد دلاتے رہنے کا جائز اورسنہرا موقع موجود ہے۔ حکمرانوں کی مجبوری ہوگی کہ وہ کچے پکے جو بھی روایتی دفاعی حربے ہوں گے، انہیں میں لگے رہیں اوراگر وہ دفاع کرنے میں کمزورپڑ گئے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے کہ اپنی طرف سے اور اپنے طرفدار میڈیا کے ذریعہ حزب اختلاف کی معتبریت پرسوال اٹھانے کاموقع دیتے رہیں۔

موجودہ وقت میں حکمراں فریق یقیناً اپنی اہم حریف کانگریس کی ’خاموشی‘ سے بے حد پریشان ہوں گے۔کانگریس نے اپنی تجربہ کارحکمت سے خود کو اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرنے سے بچائے رکھا۔ وقت، توانائی، وسائل اورشبیہ بچاتے ہوئے اس نے اتحاد کا کام فطری طور سے ہونے دیا، اس میں کانگریس نے زیادہ دخل نہیں دیا۔ اس بات کو کون انکار کرسکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا جو بھاری بھر کم کام اب تک نپٹا ہے وہ کانگریس کے مفاد میں بھی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمراں اتحاد آج تک اپنے اہم حریف کانگریس پرحملوں کے لئے الفاظ نہیں ڈھونڈ پایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے اپنی حکمت عملی سے حکمراں فریق کو چاروں خانے چت کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ انتخابی تجزیہ کاروں کونہیں بھولنا چاہیے کہ آج تک لوک سبھا کی جن 115 سیٹوں پرسیدھا مقابلہ نظر آرہا ہے ان میں زیادہ تر سیٹوں پرحکمراں فریق کو کانگریس سے ہی سیدھا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اتنا ہی نہیں کانگریس نے باقی 430 سیٹوں پرممکنہ اتحاد کے ساتھ حکمت عملی کے تحت شراکت داری کے متبادل بچا کررکھے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔