ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بساط

مسلمانوں کی تعداد پر ایک طرف تو ہندوستان ’او آئی سی‘ کا رکن بننا چاہتا ہے اور دوسری طرف حکمراں طبقہ مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

ملک میں تقریباً تمام انتخابی سرگرمیوں با لخصوص لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے موقع پرسبھی سیاسی پارٹیوں کی نظریں مسلم ووٹروں پرمرکوز ہو جاتی ہیں کیونکہ سینکڑوں ایسی سیٹیں ہیں جن پرمسلمان گیم چینجر کے کردار میں ہیں۔ انتخابا ت کے بعد مسلمانوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تب بھی غنیمت ہے لیکن اقتدار میں آنے والی پارٹی اگر سیکولر ہوتی ہے تو مسلمان فرقہ پرست اپوزیشن کے نشانے پر آ جاتا ہے اور اگرحکومت میں آنے والی پارٹی قوم پرست ہو تو مسلمان حکمراں طبقہ کی حواری تنظیموں کے سامنے جان بخشی کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ ان سب کے لئے کسی دوسرے کو قصوروار ٹھہرانا بھی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ جو قوم اپنا قائد منتخب کرنے میں تذبذب کا شکار ہوگی وہ بغیر رہنما کے ہمیشہ فٹبال کی طرح استعمال ہوتی رہے گی اور مقصد پورا ہونے کے بعد اسے آئندہ استعمال کرنے کے لئے ’لاوارث‘ چھوڑ دیا جائے گا۔

غورسے دیکھا جائے تو موجودہ وقت میں دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی ہندوستان میں مقیم ہے۔ 14.2 فیصد کے لحاظ سے مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد پر ایک طرف تو ہندوستان او آئی سی کا رکن بننا چاہتا ہے اور دوسری طرف حکمراں طبقہ مسلمان اقلیت کو دیوار سے لگانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمانوں کی تاریخ کوئی ایک دو برس کی بات نہیں بلکہ کئی صد یوں پرمحیط ہے جس نے ملک اور دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے پرپتہ چلے گا کہ مسلمانان ہند کے گہرے اثرات پورے ہندوستانی معاشرے پر قائم تھے اور آئندہ رہیں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے مگرحالات یہی بتاتے ہیں کہ آج کامسلمان بدلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جب تک مسلمان دوسرے کی مدد کا منتظر رہے گا، وہ محکوم ہی رہے گا کبھی حاکم نہیں بن سکتا اس لئے اپنی مدد خود کرنی ہوگی۔

سابقہ یو پی اے حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے بنائے گئے سچرکمیشن کی رپورٹ پیش ہوئے 13 سال گزر چکے ہیں لیکن مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی بلکہ یو پی اے حکومت کے بعد نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس رپورٹ کو بھی کانگریس کا مسلم ووٹ حاصل کرنے کا حربہ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کرتی رہی۔ ملک کے عوام کی منتخب کردہ حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا مگرحکومت تبدیلی کے بعد اس رپورٹ کے مطابق فوری کام کو آ گے بڑھانے کے بجائے اس کو بھی مسلمانوں کا جرم ہی بنا دیا گیا۔

مودی حکومت کے ذریعہ سچر رپورٹ کو’مسترد‘ کیا جانا بظاہر مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ ہے مگر اس کے پس پردہ دراصل انتہا پسندوں کوخوش کیا گیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک سیاسی حقیقت ہے۔ جس پارٹی نے بھی اس طبقہ کو نظر انداز کیا اس نے اپنا ووٹ بینک ہی ضائع کیا ہے کیونکہ مسلم ووٹر کئی سیٹوں پر اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

چند ماہ پہلے ایک نیوز چینل کے ذریعہ کیے گئے پول سروے کے مطابق ملک کے 38 صوبوں میں مسلمان ووٹر اہم کردار ادا کریں گے۔ اتر پردیش کے کم از کم 80 سے زائد اسمبلی حلقوں میں مسلمان ووٹر کسی بھی پارٹی کے لئے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، کرناٹک، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش جیسے صوبوں میں بھی مسلم ووٹر اپنی اہمیت منوائیں گے۔ ہندوستانی سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ سیاست کا یہ انداز سیکولر ہندوستان اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے شایان شان نہیں ہے۔

کانگریس قیادت والی یو پی اے حکومت کے مقابلے حکمران بی جے پی نے سیکولر اور جمہوری اقدار کے بجائے ہندوتوا کا ساتھ دیا اور اسی مذہبی جنون کے سبب مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کے تقریباً سبھی فرقے دہشت کے سائے میں زندگی گزار نے پرمجبور ہیں۔ مودی حکومت نے جس خوبی کے ساتھ سیکولر اور جمہوری گھوڑوں کو پیچھے کیا اور ہندوتوا کے پیادوں کو آگے بڑھاتے ہوئے برسوں سے قائم مسلم نشانیوں اور تشخص کو مٹانے کا فریضہ سرانجام دیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملک کی شناخت کہی جانے والے ہندو۔مسلم ہم آہنگی ناپید ہوتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی، اپنے ہندو ووٹروں کومتحد کرنے کے لئے’مسلم مخالف‘ فیصلے صادر کرتی رہی ہے، اس میں پیش پیش اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جن کے لئے اب مشہور ہوچکا ہے کہ جہاں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مٹانا ہو وہاں اس سادھو کوبھیج دیا جائے۔ یوپی ہندوستان کی سب سے بڑی ریا ست ہے، جہاں مسلم آبادی 19.3 فیصد ہے۔ باوجود اس کے بی جے پی حکومت کئی نسلوں سے آباد مسلم آبادی کے قدم اکھا ڑنا چاہتی ہے اور صوبے کے وزیراعلیٰ اور ان کی پارٹی کے لیڈر بھی اپنی سیاست چمکانے کے لئے مسلسل مسلم کش بیانات داغ رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بنتے ہی یوگی کی آنکھوں میں ہندوستان کی تاریخ سے جڑے مسلم حکمران چبھنے لگے۔ وہ کبھی مغلوں کو ہندوستانی نہیں مانتے اور کبھی تاج محل جیسے تاریخی ورثے کوغلام دور کی علامت قرار دے کر ہندوستانی تاریخی عمارتوں کی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔ کبھی دارالعلوم دیوبند کو’دہشت گردی کا مرکز‘ کہا جاتا ہے تو کبھی بلند شہرمیں ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہونے والے اخلاق احمد کیس کی تفتیش کرنے والے پولس افسرسبودھ کمار سنگھ کے قتل کو ایک ’حادثہ‘ قرار دے کر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ ان اقدامات سے بھی ہندوتوا کی سرغنہ آر ایس آر، بی جے پی اور ان کی ہمنوا این ڈی اے کو چین نہ پڑا تو الہ آباد کو پریاگ راج، فیض آباد کوایودھیا اور مغلوں کی علامت سمجھے جانے والے 138 سالہ مغل سرائے جنکشن کو پنڈت دین دیال اپادھیائے کا نام دے دیا۔ کیا ان تبد یلیوں کا مقصد شہروں اور قصبوں کے ناموں کو بدل کر ان کو ’گھر واپسی‘ کا حصہ بنانا تھا؟ مودی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ان اقدامات سے ملک کا بھلا نہیں ہوگا صرف ہندوستان کا سیکولر چہرہ ہی گہن زدہ ہوگا۔

اس وقت ملک میں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ 7مراحل میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے تحت آج (جمعرات) کو ووٹ ڈالے گئے۔ ان انتخابات میں قومی سطح پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے۔ اگرعام انتخابات میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیا ب ہو جاتی ہے تو کانگریس کو بنیادی عوامی مسائل کا فوری حل تلاش کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے جس سے ہندوستانی مسلمان خوف اور انتشار کی سیاست سے نکل سکیں جبکہ خود مسلمانانِ ہند کو بھی اپنا سیاسی کردار بڑھانا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */