واجپئی کے آخری سفر میں بھی مودی نے کیمرے کا فوکس اپنی طرف یقینی بنایا!

17 اگست کو جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوا جیسے نریندر مودی نے طے کیا تھا کہ وہ راستے بھر واجپئی کے جسد خاکی کے پیچھے پیچھے پیدل چلتے ہوئے اس مقام تک جائیں گے جہاں آخری رسومات ادا کی جانی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی سپرد خاک ہو گئے۔ جمعہ کی دوپہر جب دہلی کے دین دیال اپادھیائے مارگ واقع بی جے پی صدر دفتر سے ان کا آخری سفر شروع ہوا تو محسوس ہوا جیسے پورا ملک انھیں خراج عقیدت پیش کرنے امنڈ پڑا۔ جمنا کے ساحل پر موجود اسمرتی استھل تک پھولوں کی بارش ہوتی رہی۔

تین بار وزیر اعظم رہے اٹل بہاری واجپئی کو آخری وداعی دینے کے لیے ملک و بیرون ملک کے لیڈر دہلی پہنچے۔ لیکن کیا یہ صرف اٹل بہاری واجپئی کا آخری سفر تھا، یا پھر وزیر اعظم نریندر مودی کا ٹی وی ایوینٹ۔ بدھ کی شام سے ہی بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اٹل بہاری واجپئی کے نام پر ملک بھر کے کیمروں کا فوکس اپنے اوپر مرکوز کیے رکھا۔

بدھ کو 15 اگست یعنی یومِ آزادی تھا۔ پی ایم مودی نے لال قلع سے اپنی اس مدت کار کی آخری اور پانچویں تقریرکی تھی۔ پی ایم مودی کے لہجے میں اندیشہ اور فکر مندی دونوں نظر آ رہی تھی۔ ان کی تقریر ملک کے نام خطاب کم اور انتخابی جلسہ میں ووٹ کی اپیل زیادہ محسوس ہوئی۔اسی سلسلہ کو مزید آگے بڑھانے کا موقع انھیں اٹل بہاری واجپئی کے انتقال نے دے دیا۔

واجپئی جی کی طبیعت نازک ہی نہیں بے حد نازک تھی۔ بدھ اور جمعرات کے درمیان مودی نے 16 گھنٹے کے فرق سے دو بار ایمس کا دورہ کیا۔ واجپئی وہیں داخل تھے۔ بدھ کو دیر رات سے ہی پورے ملک کو کسی بری خبر کا اندیشہ تھا۔ تقریباً سبھی مرکزی وزراء، بی جے پی، این ڈی اے میں اس کی معاون پارٹیوں اور اپوزیشن کے سبھی بڑے لیڈر ایمس کا چکر لگا رہے تھے۔د وپہر ہوتے ہوتے کئی مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈران دہلی میں کرشن مینن مارگ واقع واجپئی کی رہائش پر بھی جمع ہونے لگے تھے۔ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں کوئی اسٹیج بنایا جا رہا ہے۔ اس دوران پی ایم مودی ایمس میں تھے۔ مانا جا رہا تھا کہ شاید وہی اس بری خبر کا اعلان کریں گے۔ لیکن وہ وہاں سے چلے گئے اور اس کے بعد شام سوا پانچ بجے ایمس نے چند جملوں میں ملک کو مطلع کیا کہ واجپئی نہیں رہے۔

مودی کے ٹوئٹر ہینڈل سے تہنیتی پیغام آ گیا جو کہ انگریزی اور ہندی دونوں میں تھا۔ غالباً یہ پہلے سے تیار کیا ہوا تھا۔ واجپئی کے انتقال پر ٹی وی کیمرے جیسے کسی کو تلاش کر رہے تھے اور شام ڈھلتے ڈھلتے مودی پھر کیمروں کے فوکس میں تھے۔ ٹی وی اسکرین پر ان کے ہی بیان نظر آ رہے تھے۔

سابق وزیر اعظم کے آخری سفر کا بہترین انتظام کیا گیا، اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ ہر خاص و عام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع دیا گیا، اور دیا بھی جانا چاہیے تھا۔ آخری دیدار کے لیے جب واجپئی کا جسد خاکی پہلے ان کی رہائش اور پھر بی جے پی صدر دفتر میں رکھا گیا تو مودی ہی فوکس میں تھے۔ سابق وزیر اعظم کا آخری سفر تھا تو لائیو ٹیلی کاسٹ ہونا ہی تھا۔ بھلے ہی بی جے پی صدر دفتر سے جمنا کا کنارہ محض ساڑھے تین کلو میٹر دور ہو لیکن آخری سفر تھا تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو لگنا ہی تھا۔ پورے راستے جگہ جگہ کیمرے لگے تھے جو سرکاری بھی تھے اور پرائیویٹ بھی۔ اس گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کیمرے کے فوکس سے کوئی ایسا لیڈر دور کیسے رہ سکتا تھا جو دو دن پہلے ہی ملک کے سامنے اپنی حصولیابیاں شمار کراتے ہوئے پیشانی کا پسینہ پونچھ رہا تھا، خشک گلے کو تر کرنے کے لیے پانی پی رہا تھا... کیونکہ شمار کرانے کے لیے تو کچھ تھا ہی نہیں۔

پی ایم مودی نے واجپئی کے آخری سفر میں یقینی بنا دیا کہ بھلے ہی آخری سفر واجپئی کا ہو لیکن کیمرے ان پر ہی فوکس رہنے چاہئیں۔ انھوں نے طے کیا کہ وہ راستے بھر واجپئی کے جسد خاکی کے پیچھے پیچھے پیدل چلتے ہوئے اس مقام تک جائیں گے جہاں آخری رسومات ادا کی جانی ہیں۔ بلاشبہ واجپئی کے آخری سفر میں عوامی سیلاب دیکھنے کو مل رہا تھا، پورے راستے لوگوں کی بھیڑ تھی اور ہزاروں کی بھیڑ اس آخری سفر میں ساتھ تھی۔ لیکن کیمرے وقتاً فوقتاً ہی اس بھیڑ کو دکھا رہے تھے۔ نظر آ رہے تھے تو مودی، امت شاہ اور ان کے پیچھے چلتے بی جے پی حکمراں ریاستوں کے وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزراء۔

بھکتوں کو یہ سب پڑھنا سننا شاید اچھا نہ لگے گا لیکن ایسے مواقع پر پی ایم مودی کے اس ’کیمرہ عمل‘ کا تذکرہ تو ہونا ہی چاہیے۔ یہاں دھیان رکھنا ہوگا کہ واجپئی بی جے پی کے پہلے لیڈر تھے جو تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے۔ پہلے 13 دن، پھر 13 مہینے اور پھر 5 سال۔ لیکن بی جے پی کے دوسرے وزیر اعظم اس کشمکش میں ہیں کہ کیا انھیں دوسرا موقع ملے گا۔ کشمکش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ واجپئی کے انتقال کا غم بی جے پی حامی ہی نہیں بلکہ ملک کے وہ 69 فیصد ووٹر بھی منا رہے ہیں جنھوں نے ہندی، ہندو اور ہندوتو اکی سیاست کی علامت مودی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔

ان باتوں کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ کیا مودی کا واجپئی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں ٹی وی سے لے کر ریڈیو تک، کمپیوٹر سے لے کر موبائل تک، ملک میں انتخابی ریلیوں سے لے کر بیرون ممالک میں بسے ہندوستانیوں کے درمیان تقریر تک اور وقت وقت پر پسندیدہ ٹی وی چینلوں و اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کو پہلے سے طے انٹرویو دے کر موضوعِ بحث رہنے کے بعد بھی یہ نہیں کہا جا سکا کہ مودی سبھی کے لیے قابل قبول وزیر اعظم یا لیڈر ہیں۔

واجپئی کو ڈیموکریٹ یعنی جمہوریت پسند کہا جا سکتا ہے اور کچھ حد تک یہ درست بھی ہے۔ واجپئی نے اپنی سیاسی زندگی کا ایک طویل اور بڑا حصہ اپوزیشن میں رہتے ہی گزارا، پھر بھی ناراضگی اور نفرت نہ تو ان کی شخصیت سے جھلکی نہ ان کے الفاظ سے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو این ڈی اے کے ساتھی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ ان کی جتنی قربت تھی اتنی ہی اپوزیشن میں رہتے ہوئے دوسری پارٹیوں سے۔ پنڈت نہرو اور محترمہ اندرا گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی اور پی وی نرسمہا راؤ تک ان کا رشتہ اور رویہ دوستانہ رہا۔ وہ سیاسی تبصرے کرتے، لیکن لفظوں کی حد کبھی نہیں لانگھتے تھے۔ لیکن بی جے پی کے دوسرے وزیر اعظم نریندر مودی کیا کچھ نہیں بول جاتے۔ یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کے غیر ملکی نژاد ہونے پر قابل اعتراض تبصرہ ہو، سابق الیکشن کمشنر جے ایم لنگدوہ کے مذہب کی تشریح ہو، سنندا پشکر معاملے پر ششی تھرور پر کیا گیا تبصرہ ہو، حال ہی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران راہل گاندھی کے ذریعہ گلے ملنے کا مذاق اڑانا ہو... مودی نہ صرف بے حد سطحی لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ سیاسی رویے کو سستے پن کا جامہ بھی پہنا دیتے ہیں۔

واجپئی کا دامن بھی کوئی پاک صاف نہیں کہا جا سکتا۔ گراہم اسٹینس اور ان کے بچوں کو انہی کے دور اقتدار میں زندہ جلایا گیا تھا، گجرات فساد انہیں کے وزیر اعظم رہتے ہوئے سرزد ہوئے تھے۔ آئی سی 814 ہائی جیک سے لے کر کارگل جنگ اور پارلیمنٹ پر حملے تک دہشت گردانہ حملے انہیں کے دور میں ہوئے۔ لیکن انھوں نے گجرات فسادات کو ملک پر داغ کہا تو مودی کو راج دھرم بھی یاد دلایا، اور گراہم اسٹینس واقعہ کے لیے آر ایس ایس کی تنقید بھی کی۔ لیکن مودی گئو رکشکوں کے ذریعہ کی جا رہی موب لنچنگ پر خاموش رہتے ہیں، خواتین کی سیکورٹی کے ایشو پر خاموش رہتے ہیں۔

اقتصادی محاذ پر بھی واجپئی کا ریکارڈ صاف ہے۔ زبردست زلزلہ، خطرناک طوفان، کئی ریاستوں پر خشک سالی کی مار، بین الاقوامی بازار میں تیل کی بڑھتی قیمتیں اور کارگل جنگ کے باوجود واجپئی کے دور میں ملک کی ترقی کی رفتار 8 فیصد کے قریب رہی۔ لیکن مودی نے کیا کیا۔ جی ڈی پی معلوم کرنے کا طریقہ بدلنے اور تیل کی قیمتوں پر زبردست نرمی کے باوجود مودی کے دور میں جی ڈی پی گروتھ 6 سے 7 فیصد کے آس پاس ہی رہا۔

واجپئی میں حوصلہ تھا کہ وہ مردانگی کا مظاہرہ کر کے بس میں لاہور گئے اور اپنی تقریری صلاحیتوں و لفظوں کی فنکاری سے لاہور کو فتح کر لیا۔ بغیر بلائے ہی نواز شریف کو یوم پیدائش کی مبارکباد دینے پہنچ گئے۔ ہاں، اتنا ضرور طے کیا کہ کیمروں کے فوکس سے کچھ چھوٹ نہ جائے۔

واجپئی میں حوصلہ تھا کہ وہ کھلی پریس کانفرنس میں صحافیوں سے کھل کر بات کرتے تھے، لیکن مودی، وہ تو پہلے سے طے سوالوں کے جواب ہی دیتے ہیں، وہ بھی اپنی پسند کے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مودی کو سیکولر لفظ سے چڑھ معلوم پڑتی ہے جب کہ واجپئی کا ماننا تھا کہ ’’ہندوستان اگر سیکولر نہیں ہے تو ہندوستان، ہندوستان نہیں ہے۔ حکومتیں آئیں گی-جائیں گی، لیکن ملک بچا رہنا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Aug 2018, 6:31 PM
/* */